تحریر: یاسر عرفات اگر ہم میں سے کوئی یہ سمجھتا ھے کہ ہمارے ملک میں حکومت بدلتی رہتی ھے تو وہ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ھے۔ بے شک حکمران تو کئی آئےاور گئے مگر مکھوٹوں کی تبدیلی کے باوجود حکومت جس بلا کا نام ھے وہ ایک ہی ھے جو 67 سال سے قوم کا لہو نچوڑنے میں مصروف ھے مگر اسکی ہوس آج تک بھری نہیں۔ ہر آنیوالا چہرہ عوام کے تمام تر مصائب کی ذمہ داری پرانے حکمران کے سر تھوپ کر فارغ ھو جاتا ھے اور پھر خود وہی سب کچھ کرنے لگتا ھےتاکہ آنے والے دنوں میں نیا بازی گر پھر سے اسی شغل کو دھرا سکے ۔ یہی چکر چلاتے چلاتے عوام کی کئی نسلیں گزر چکی ھیں اور دائم سنگھاسن پہ بیٹھی حکومت اپنے معاملات میں تو خوب سیانی ھے مگر عوام کے معاملے میں ہمیشہ جھلی بنی رہتی ھے۔
اس کا وطیرہ ھے کہ یہ بڑے سے بڑے مسئلے کو بالکل آسان لیتی ھے اور اس وقت تک الہڑ نادان بنی رہتی ھے جبتک پانی سر سے اونچا نہ ھو جائے ۔ہمیں آجتک معلوم نہ ھو سکا کہ ہماری خارجہ پالیسی کیا ھے اور داخلہ پالیسی کس چڑیا کا نام ھے ۔ ہمیں کانوں کان خبر نہیں ھوتی کہ ملک میں قدرتی وسائل کی فراوانی اور افرادی قوت کے سیل رواں کے باوجود حکمرانوں نے بھیک کے ٹھیکرے کیوں اٹھا رکھے ھیں اور اس بھیک کو جھونکا کس جہنم میں جاتا ھے ۔تعلیمی نظام کا بیڑہ غرق کرنے کا ٹھیکہ کس نے اٹھا رکھا ھے ۔ بڑے سے بڑے بحران پہ مچنے والے واویلے کی مدت صرف چند روز ہی کیوں ھوتی ھے اسکے بعد اسے کس پاتال میں غرق کر دیا جاتا ھے کہ پھر ڈھونڈے سے اس کا سراغ نہیں ملتا۔
ہم دنیا کے غریب ترین لوگ ھیں اور ہمارے حکمران دنیا کے متمول ترین افراد ھیں ۔ صرف لوڈشیڈنگ ہی نہیں بلکہ جہالت،بھوک ننگ اور افلاس کے اندھیروں نے ہمیں چہار جانب سے گھیر رکھا ھے اور اس پہ مستزاد دہشت گردی کا وہ بھوت ھے جو اعلیٰ اعلان یہاں بھیروی ناچ رہا ھے ۔ پورے ملک میں انسانی جان ومال اسکے ہاتھ گروی رکھی جا چکی ھے جہاں اور جب چاہے کسی بھی مقام کوتباہ و برباد کر دے ،لاشوں کے ڈھیر لگائے یا انسانوں کو زندہ جلا دے ۔ بچہ ،بوڑھا ،عورت ،مرد یا جوان کوئی بھی اسکی دست برد سے محفوظ نہیں ۔ اسکے بعد حکمرانوں کا کام صرف یہ ھے کہ وہ اپنے محفوظ عافیت کدوں میں انگڑائیاں لیتے بیدار ھوں، اپنے بیابات کے پلندے نکالیں اور اس میں سے مطلوبہ بیان کو جھاڑ پونچھ کر وقوعے کے مطابق چند نئے الفاظ شامل کریں بلکہ وہ یہ سب کچھ بھی کیوں کریں ۔ کوئی غلام یہ خدمت سر انجام دے اور وہ گھسا پٹا بیان جاری کرنے کے بعد اپنے مشاغل میں پھر سے کھو جائیں۔
Shah Alam
تاریخ کے اوراق میں شاہ عالم کا دور ہمارے حالات سے اس قدر مشابہت رکھتا ھے کہ حیرت ھوتی ھے ۔اس دور میں مغلوں کی عظیم سلطنت طوائف الملوکی کا شکار ھو چکی تھی ۔ انگریز ایک بڑے گدھ کی طرح پر پھیلائے بیٹھا تھا اور بہت خاموشی سے مقامی حکمرانوں کی ھوس اقتدار کے نتیجے میں ، ایک لاش میں بدلتی مملکت کے حصے بخروں کو اپنے طاغوتی پنجوں تلے سمیٹنے میں مصروف تھا اور ظل الہی شاہ عالم صاحب اپنے محل میں درباریوں میں گھرے اپنے قصیدے سننے میں مگن رہتے تھے ۔ اوقات یہ رہ گئی تھی کہ مثل مشہور ھو چکی تھی ۔ شاہ عالم از دلی تا پالم ۔ پالم دہلی کا مضا فاتی علاقہ تھا جہاں اب دہلی کا ھوائی اڈا قائم ھے تو کہتے تھے کہ بس یہیں تک شاہ عالم کی حکومت ھے ۔ لیکن جب وہ دربار میں آتا تو چوب دار صدا دیتا ۔ آفتاب نظر،مہر خدم،سکندر بارگاہ،جمشید کلاہ،صاحب دانش و فرنگ،خداوند کشورستان،سلطان حق آگاہ،کبریائی بر روئے زمین ظل سبحانی تشریف لاتے ھیں ۔ بادشاہ کا سینہ نخوت سے پھول جاتا اور وہ خود کو باقی مخلوق سے افضل سمجھتے ھوئے اپنے مشاغل میں گم ھو جاتا ۔ جبکہ قلعے سے باہر عوام الناس کے لئے ایک حشر برپا تھا ۔جاٹوں،روہیلوں ، سکھوں اور مرہٹوں کے ہاتھوں عام ادمی کی جان محفوظ تھی نہ مال ۔ آئے دن کی یورشوں نے دلی کو پامال کر دیا تھا ۔ اہل علم و فن نقل مکانی کرتے جا رھے تھے ۔ وہ حسین پختہ نہر جو دلی کے بیچوں بیچ بہتی تھی کوڑے کرکٹ سے اٹ چکی تھی۔
قلعے کی بیرونی دیواروں سے قیمتی پتھر نوچے جا چکے تھے۔ رعایا کا بھرکس نکالنے والے تو بے شمارتھے لیکن ان کے زخموں پہ مرہم رکھنے والا ، انہیں تحفظ اور امن فراہم کرنے والا کوئی نہ تھا ۔ حکمران تو یکے بعد دیگرے بدلتے رھے مگر انداز حکمرانی یہی رہا یہانتک کہ محمد شاہ رنگیلے کا دور آ گیا اور نادر شاہ ھندوستانی علماء کے بلاوؤں پہ یہاں آ پہنچا ۔ اس نے مرہٹوں کا قلع قمع تو کر دیا لیکن مغلیہ سلطنت کی بچی کھچی عزت اسکے پاؤں تلے روندی گئی ۔ عوام کاقتل عام ھوا ۔ انسانی خون پانی کی طرح نالیوں میں بہتا رہا اور بہادر شاہ ظفر آخری مغل حکمران کے بعد بر صغیر پورا کا پورا انگریزوں کی جھولی میں جا گرا۔
آج کئی صدیوں کے بعد بدلے ھوئے چہروں کے ساتھ تاریخ وہی مناظر پھر دہرا رہی ھے ۔کینوس وسیع ھو چکا ھے ۔ دنیا کا سب سے بڑا دیو استبداد اپنے پنکھ پسارے خونی پنجے پھیلائے امت مسلمہ کے نیم مردہ جسد کےحصے بخرے سمیٹنے میں مصروف ھے ۔ کتنے ملک ہڑپ کر ڈالے ۔ کہاں کہاں خون کی ھولی کھیلی جا رہی ھے ۔ شہروں کے شہر کھنڈر ھو چکے ۔ انسانیت نے منہ چھپا لیا اور کیسے کیسے درندے اسلام کے نام پہ ملت اسلامیہ کو ہی بھنبھوڑنے میں مصروف ھیں ۔ ہمی نشانہ ستم ھیں اور ہم ہی ظالم کہلائے جانے کے سزاوار ۔ ثواب وہی سمیٹ رہا ھے جو قتل کرتا ھے ۔ صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے نہ جانے کن کن کونوں میں کلمہ گو سیخ کباب کی طرح بھونے جا رھے ھیں لیکن ہمارا ہر ظل الہی اپنی عیش میں غرق ھے خون کے دریا بہہ رھے ہیں اور اقتدار کے متوالے اپنے حال میں مست ھیں ۔ وہ یہ بھول چکے ہیں کہ موت تو سب کے لئے ھے خواہ دہشت گرد کے ہاتھوں آئے یا خیرات سے بنے عشرت کدوں کے نرم و گرم گدیلوں پہ ۔ البتہ شہادت کی موت اور بے غیرتی کی موت میں فرق زمین و آسمان کا ھے ۔ اللہ ہمیں ایسی موت عطا فرمائے جو ہمیں اسکے پسندیدہ بندوں کی صف میں کھڑا کر دے۔ آمین