تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری احمد پور شرقیہ میں پٹرول کے ٹینکر الٹنے اور پھر دیہاتیوں اور دیگر افرادکی طرف سے پٹرول اکٹھا کیے جانے پر جب آگ بھڑک اٹھی تو سوا دو سو کے قریب افرادزندہ جل بھن کر کوئلہ ہو گئے اور جو راہ چلتے اور گاڑیوں میں گزرتے لقمہ اجل بن گئے ان کی تو ابھی گنتی ہی شروع نہیں ہوئی جب کہ وفات پاجانے والوں کی تعداد سے بھی کچھ زیادہ ابھی تک موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
ٹینکر کی مالک کمپنی پہلے ہی بلیک لسٹ کی جاچکی تھی اور تیل بھی زیادہ بھر کے لایا جارہا تھااوپر والا ڈھکنا بھی سیل نہ ہوگا اسی لیے الٹتے ہی پٹرول خارج ہونا شروع ہوگیاگھریلو مائع گیس کا سلنڈر پھٹے تو وہ بھی بم کی طرح پھٹتا ہے اور موقع پر اورقرب وجوار میں موجود تقریباًبیشترافراد کو موت نگل جاتی ہے چند سال قبل حاصلپور میں ایسا واقعہ ہوا تھا کہ ایک مائع گیس کی دوکان پر خود سلنڈر بھرے جارہے تھے کہ “حادثہ “ہو گیا اور سو کے قریب افراد لقمہ اجل بن گئے اور اس سے زائد شدید زخمی ہوکر ہسپتالوں میں دم توڑتے رہے۔
پورے شہر پر قبرستان جیسی کیفیت کئی روز تک طاری رہی جیسے احمد پور شرقیہ اور اس کے قرب وجوار میں عید سے قبل ہی ماتمی کیفیت پیدا ہو گئی تھی پورے ملک میں ٹینکر کے حادثہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کی وجہ سے سوگ کی کیفیت طاری رہی اور حکومت سمیت سبھی پاکستانیوں نے عید سادگی سے منائی کسی قسم کے میلے ٹھیلے و ڈرامے نہ ہوئے ،سینما تک بھی بندرہے خصوصی توجہ کی بات یہ ہے کہ پورے ملک میں سب تحصیل اور کہیں کہیں تو تونین کونسلوں کی سطح پر بھی حکومتی پابندیوں کے باوجودگنجان آبادی میں خالی سلنڈروں کی دوبارہ ری فلنگ کا انتہائی خطرناک کاروبار عروج پر ہے کسی نے لاپرواہی کرتے ہوئے جلتا سگریٹ ہی قریب پھینک دیا تو وہ دھماکہ ہوگا کہ الاامان والحفیظ ۔ہم پھر اس کی تفتیش وتحقیقات میں مصروف ہوکر اس واقعہ کو بھول جائیں گے گیس ری فلنگ انتہائی غیر قانونی کام ہے جب کہ رجسٹرڈ کمپنیاں ہی خالی سلنڈروں کو بھر کر اور سیل بند کرکے دور دراز علاقوں میں بھجواتی ہے جن سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا مگر ہمارے ہاں ایسا رواج ہی بنتا جارہا ہے کہ جب بھی گیس کی ضرورت ہوئی تو لوگ چار پانچ کلو گیس بھروانے کے لیے سلنڈر گھر وں سے لاکر ری فلنگ کرواتے ہیں جو کہ سخت خطر ناک اور جان لیوا عمل ہے کئی جگہ سلنڈر پھٹ کر اور اگر دوکان ہے تو سارے سلنڈر پھٹ کر اتنے بڑے دھماکے ہو چکے ہیں کہ توبہ بھلی ۔مگر پھر بھی یہ غیر قانونی کام مسلسل زور شور سے جاری ہے اور کوئی تھانہ کچہری اور چھوٹی بڑی عدالتیں اس پر نہ تو نوٹس لیتی ہیںاور نہ ہی ملزمان کی پکڑ دھکڑ کرتی ہے اب تو گیس سلنڈر کی ری فلنگ اور پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں ،رکشوں میںگیس سلنڈر کا خوفناک استعمال عام ہوگیا ہے۔
یہ سب کچھ سول ڈیفنس ،محکمہ ٹرانسپورٹ ،ٹریفک پولیس ومقامی تھانوں کی نفری کی نااہلی اور لاپرواہی کے سبب منی بسوں ویگنوں میں گیس سلنڈروں کا استعمال درجنوں گنا بڑھ چکا ہے ۔اس طرح سے سانحہ جات ہونے کے امکانات و خطرات بڑھنے لگے ہیں۔نجی ٹرانسپورٹ میں لگے گیس سلنڈرز روزانہ سانحہ کا باعث بنتے ہیںجس سے معصوم افرادکی ہلاکت عام ہوگئی ہے ہفتہ میں ایک آدھ بار تو ویگنوں میں گیس سلنڈروں کے پھٹنے کے سبب کئی افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں مگر ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور مقتدر ذمہ دار افسروں اور بیورو کریٹوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ایسے حادثات سے انتظامیہ نے آج تک کوئی سبق نہیں سیکھاکہ وہ جو محاورہ مشہور ہے کہ چوری ڈکیتی اور واردات ہوہی نہیں سکتی جب تک اس علاقہ کے تھانیدار کا اس میں حصہ نہ ہومگر اب تو اس میں حصہ بقدر جسہ مقامی ایم این اے ایم پی اے اور بلدیاتی نمائندے بھی وصول کرتے ہیں تھانے جن کو امن کی آماجگاہ ہونا چاہیے تھاوہاں پر لوگوں کو لوٹنے ،اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیوں کی پلاننگیں تیار ہوتی ہیں اگر اس کو مزید خفیہ رکھنا ہو وہ تھانیدار صاحبان کسی موثر جاگیردار ،وڈیرے اور تمندار کے ڈیرے پر ایسی پلاننگ وارداتیوں سے مل کر تیار کرتے ہیں ۔جب گیس ری فلنگ اور ٹرانسپورٹ میں گیس سلنڈرلگنے ہی ہیں تو پھر مقامی تھانہ ان سبھی سے منتھلیوں کا مک مکا کرلیتا ہے۔ذرا اوپر سے پریشرآیاتو چند کا چالان اور جرمانہ کرڈالا اور اوپر افسران کو ” سب اچھا” کی رپورٹ بھیج دی۔
پھر سب کچھ اسی طرح مسلسل چلتا رہتا ہے اور اوپر تک حصہ پورا وقت کی پابندی سے پہنچتا رہتا ہے اسی طرح جوئے اور منشیات کے اڈوں سے” ماہانہ رزق حلال “کی وصولی ہوتی اور ساری بیورو کریسی کو اصولی طور پر پہنچتی رہتی ہے اس لیے ایسے کاروباروں کو بند کرنا کوئی خالہ جی کا واڑا نہیں پھر ایسی دوکانیں آبادی کے وسط میں موجود ہیں جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو درجنوں افراد ہلاک ہوتے ہیںاگر ہر صوبہ کا چیف سیکریٹری ،ہوم سیکریٹری اور آئی جی حکم جاری کردے کہ کسی جگہ سے ری فلنگ کرنے یا ٹرانسپورٹ میں سلنڈر لگنے کی اطلاع ملی تو مقامی ایس ایچ او، ڈی ایس پی اور اے سی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گاتو یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم ہوسکتا ہے۔
کیونکہ وصولی کردہ حرام رقوم کا پورا حصہ باقاعدگی سے اوپر تک پہنچتا رہتا ہے تو کون ایسے حکم جاری کرے گا؟ کہ کون اپنی روزی پر لات مارتا ہے ؟حکم ہو بھی جائے تو انہی کے برادر لوکل افسران نے عملدر آمد کرنا ہے اس لیے یہ سلسلے یونہی چلتے رہیں گے اور لوگ ہر جگہ اسی طرح لقمہ اجل بنتے رہیں گے ۔ہاں اگر تنگ آمد بجنگ آمد کی طرح بھوک سے بلکتے خود کشیاں کرتے اور زندہ جل مرنے والے نچلے طبقات کے لوگ غلیظ اور کیچڑ بھری گلیوں محلوں چکوں گوٹھوں سے اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے اور سیدی مرشدی یا نبی یا نبی کی صدائیں بلند کرتے تحریک کی صورت میں نکل پڑے تو مفاد پرست رشوت خور اور سبھی جغادری سیاستدان بذریعہ انتخابات مدفون ہوکر رہ جائیں گے کہ ایسے خود ساختہ موت کے شیطان پابہ زنجیر ہوگئے تو رہ جائے گا نام اللہ کا اور غربت افلاس بے روزگاری دہشت گردی کے بت بھی پاش پاش ہو جائیں گے۔