تحریر: خواجہ وجاہت صدیقی اس کا نام سجل تھا،سجل بچپن میں ہی یتیم ہو گیا تھا،سجل کی ماں گائوں کے ایک سیٹھ کے ہاں ان کی حویلی میںملازمہ تھی اور سجل کی چھوٹی بہن بھی ماں کیساتھ حویلی میں ہی ماں کا ہاتھ بٹاتی تھی جس کے بدلے انہیں دو وقت کی سکھ کیساتھ عزت کی دال روٹی نصیب ہو جاتی تھی،عید اور خوشی کے دیگر مواقعوں پر کچھ رقم بھی اور پہننے کو چند جوڑے سیٹھ کے گھر سے مل جایا کرتے تھے،سجل ماں کا لاڈلا اور بہن کی آنکھ کا تارا تھا،دونوں بہن بھائیوں میں خوب بنتی تھی اور دونوں ہی ایک دوسرے کیلئے جیتے تھے،سجل کی ماں کی شدید خواہش تھی کہ اس کا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے اور وہ بھی اپنے اس خواب کی تعبیر سجانے کیلئے خوب محنت کرتی تھی،سجل کی ماں نے اپنے بیٹے کے سنہرے مستقبل کی خاطر اسے گائوں ہی کے ایک پرائیویٹ سکول میں داخل کروا رکھا تھا ،سجل بھی پڑھائی پر بھرپور توجہ دیتا تھا اور وہ بھی اپنی ماںکے خواب کو سچ ثابت کرنے پر دن رات تُلا ہوا تھا اور کوب محنت سے کام لیتا تھا،وقت گزرتا گیا اور سجل نے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کر کے اپنی ماں کی محنتوں کا ثمر بخشا ،اس دن سجل کی ماں بہت خوش تھی اور اس نے اپنی اسی خوشی کی خاطر سارے گائوں میں مٹھائی تقسیم کی اور ہر کوئی سجل کی ماں کو اس کے بیٹے کی اس شاندار کامیابی پر اسے مبارکباد دے رہا تھا،
حویلی کے مالک سیٹھ ریاض نے جب سجل کی کامیابی کا سنا تو انہوں نے بھی نہ صرف سجل کی ماں کو مبارکباد دی بلکہ کہا کہ واقعی سجل ایک قابل اور محنتی لرکا ہے کیوں نا اب اس کا شہر کے کسی اچھ کالج میں داخلہ کروا لین،سجل کی ماں کو سیٹھ کی بات اچھی لگی اور یوں سجل کو سیٹھ ریاض کی مدد سے شہر کے ایک اچھے کالج میں داخلہ مل گیا،ساتھ ہی سیٹھ ریاض نے یہ مہربانی بھی کی کہ سجل کے خرچے وغیرہ کیلئے اس کی ماں کو کچھ معقول سی رقم بھی پکڑا دی،داخلہ ملنے کے بعد سجل روزانہ گائوں سے شہرتک ایک گھنٹے کی مسافت لوکل بس کے ذریعے کالج آنے اور جانے کیلئے صرف کرنا پڑتا تھا،کالج میں سجل اپنے کئی کلاس فیلوز کیساتھ دوستی بھی ہو گئی تھی اور وہ اسے اپنے ساتھ موٹرسائیکل کی سواری کے بارے میں بتاتے اور اس کے موٹر سائیکل کی سواری کیلئے شوق کو ابھارتے رہتے، ایک دن اس کے ایک دوست نے کہا کہ وہ بھی اپنی جان ان پبلک ٹرانسپورٹ سے چھڑائے اور ایک موٹر سائیکل خرید لے جو روازانہ اسے گائوں سے کالج تک باآسانی لا اور لے جا سکے،دوست نے سجل کو بتایا کہ اس کا ایک جاننے والا ہے جو اسے ارزاں نرخوں پر دلوا دے گا،
wheeling
پہلے تو سجل انکار کرتا رہا پھر اس کا انکار اقرار میں بدل گیا اور اس روز جب شام کو سجل گھر واپس آیا تو اس نے ماں کے سامنے موٹر سائیکل لینے کی ضد پکڑ لی،مرتی کیا نہ کرتی ادھر ادھر سے کچھ نہ کچھ رقم اکٹھی کی اور کچھ سیٹھ صاحب سے ادھار پکڑا اور سجل کی ضد پوری کروا دی،اب سجل بھی موٹر سائیکل کے ذریعے روزانہ کالج آتا اور جاتا تھااور یوں اسے کوئی پریشانی بھی نہ ہوتی تھی،وقت گزر رہا تھا اسی دوران سجل کی بہن مدیحہ کا رشتہ بھی طے ہو گیا،مدیحہ اتنی پڑھی لکھی تو نہ تھی البتہ گھر کے کاموں میں وہ کافی سگڑ تھی،جہاں مدیحہ کی شادی ہونے جا رہی تھی انہیں بھی ان کے حالات کا پتہ تھا بس وہ خدا ترس لوگ تھے اور انہوں نے بھی رسمی معاملات طے کرنے کے بعد تاریخ طے کر لی تھی،اب مدیحہ کی شادی کو کچھ ہی دن باقی تھی،گائوں کے لوگ بھی ان خوشیوں میں شامل تھے اور خوب ہاتھ بٹا رہے تھے ،سجل کی ماں بھی خوش تھی کہ اس کی زندگی میں مدیحہ اپنے گھر کی ہو جائے گی اور بیٹا بھی خوب محنت کر رہا تھا اور ماں کی آنکھوں کا نور بنا ہوا تھااور باقاعدگی کے ساتھ کالج آ جا رہا تھا،کہتے ہیں کہ مصیبت جب آتی ہے تو وہ اپنے آنے کی خبر نہیں دیتی ،سجل اپنے دوستوں کیساتھ موٹر سائیکل پر گھومتا پھرتا بھی تھا اور ان کیساتھ کبھی کبھار ریس بھی لگاتا تھا،ایک دن ایک دوست نے سجل کے سامنے ون ویلنگ کی اور سجل کو بھی چیلنج کیا جو کہ وہ ون ویلنگ مین اپنی مہارت نہ دکھا سکا تو دوستوں نے سجل کا خوب مذاق اڑایااور اسے طعنے دیے کہ وہ صرف کتابوں کا کیڑا ہے اور یہ روگ اس کے بس نہیں،
یہی وہ طعنے تھے جو سجل کے کانوں میں سیسہ گھول رہے تھے اور اس نے بھی ون ویلنگ کرنے کی ٹھانی تاکہ اپنے دوستوں کا منہ بند کروا سکے،اس نے کئی بار ٹرائی کی مگر کامیاب نہ ہو سکا آخر ایک دوست نے کہا کہ چلو ریس لگا لیتے ہیں اگر جیت گئے تو مان جائیں گے،،،سب نے موٹر سائیکل کیا دوڑائے سجل بھی اس ریس میں شامل ہو گیا ،ریس کے دوران لڑکوں نے ون ویلنگ کی تو سجل نے بھی پھر سے ون ویلنگ کی کوشش کی تو اچانک اگلا پہیہ ہوا میں بلند ہوا اور سجل اپنا توازن موٹر سائیکل پر برقرار نہ رکھ سکا اور موٹر سائیکل پھسل گیا اور سڑک کنارے ایک سریا سجل کے پیٹ میں گھس گیا ،لوگوں نے سجل کو اٹھا کر ہسپتال لایا مگر وہ جانب نہ ہو سکا اور اس کی موت واقع ہو گئی،ادھر گائوں میں سجل کی بہن مدیحہ کی شادی کی شہنائیاں بج رہی تھیں اور دوسری جانب سجل کی نعش شہر سے گائوں لائی جا رہی تھی،،،اور سب خواب یوں چکنا چُور ہو گئے تھے،،،قارئین کرام!یہ صرف ایک سجل کی کہانی ہے ،نہ جانے آئے روز کتنے ہی سجل اس خونی چرخے اور ون ویلنگ جیسے خطرناک کھیل کی بھینٹ چڑھ رہے ہونگے؟؟،المیہ یہ ہے کہ آئے روز ہونے والے ایسے ہی حادثات کے باوجود بھی ان پر نہ تو قابو پایا جا سکا ہے اور نہ ہی کوئی قواعدو ضوابط وضع کیے جا سکے ہیں،گلوبل اسٹیٹس رپورٹ برائے روڈ سیفٹی 2015 کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں سٹرکوں پر ہونے والے ٹریفک حادثات میں ہونے والے ہلاک اور زخمی افراد ان ممالک کے جی ڈی پی میں 5 فیصد خسارے کا باعث بنتے ہیں،
روڈ سیفٹی پر آنے والی یہ رپورٹ اپنی سیریز کی تیسری رپورٹ ہے جو کہ دنیا کہ 180 ممالک سے حاصل کئے جانے والے ڈیٹا سے بنائی گئی ہے،رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا اور پیسیفک کے مغربی علاقے میں ہونے والے ایک تہائی ٹریفک حادثات کا سبب موٹر سائیکل ہے،ادھر دنیا بھر میں ٹریفک حادثات میں موت کا شکار ہونے والے سائیکل سواروں کی تعداد 4 فیصد جبکہ موت کا شکار ہونے والے پیدل مسافروں کی تعداد 22 فیصد ہے،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں فروخت کی جانے والی 80 فیصد گاڑیاں بنیادی حفاظتی معیار پر پورا نہیں اترتی، ان ممالک میں کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک شامل ہیں،رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ‘سال 2010 کے بعد سے 68 ممالک میں ٹریفک حادثات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جن میں 84 فیصد حادثات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوئے تھے،79 ممالک میں اس عرصے کے دوران ٹریفک حادثات میں کمی دیکھی گئی، جس میں سے 56 فیصد ممالک کم اور درمیانی آمدنی والے تھے،رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانون سازی، قانون پر عمل درآمد، سٹرکوں کی تعمیر اور گاڑیوں کو محفوظ بنانا ایسے عوامل تھے جن کے باعث بیشتر ممالک میں ٹریفک حادثات میں کمی واقع ہوئی، جبکہ دنیا میں خطے کے لحاظ سے افریقہ میں ٹریفک حادثات کی شرع سب سے زیادہ ہے جبکہ یورپ میں یہ شرع سب سے کم 9.3 فیصد ہے،رپورٹ میں پاکستان کے بارے کہا گیا ہے کہ پاکستان ان 80 ممالک میں شامل ہے جن کے پاس اموات رجسٹریشن کا مناسب ڈیٹا موجود نہیں ہے،پاکستان کے پاس کسی قسم کی نیشنل روڈ سیفٹی پالیسی اور اموات میں کمی کا ہدف بھی متعین نہیں کیا گیا ہے،
Pakistan
اس کے علاوہ پاکستان میں موجودہ سٹرکوں کے باقاعدہ معائنہ کا طریقہ کار بھی موجود نہیں۔ اب اس رپورٹ سے یہ بخوبی پتہ چل رہا ہے کہ پاکستان میں موٹرسائیکلنگ ،سائکیکلنگ اور پیدل چلنے کو فروغ دینے کے حوالے سے پالیسی موجود نہیں،پاکستان میں ہونے والے حادثات اور ترقی یافتہ ممالک میں موٹر سائیکل حادثات کی کمی کی بنیادی وجوہات وہاں وہی روڈ سیفٹی ہے جس پر عملدرآمد کیلئیء سختی برتی جاتی ہے،یورپین ممالک میں موٹر سائیکل کو اس لیے محفوظ سواری تصور کیا جاتا ہے کہ وہاں موٹر سائیکل سوار اور لگژری گاڑی والے کے حقوق برابر ہیںاور موٹر سائیکل سوار کو تب تک روڈ پر آنے کی ممانعت ہوتی ہے جب تک وہ موٹر سائیکل سواری کی حفاظتی کٹ کا ستعمال نہ کرے،خلاف ورزی پر اسے قانون کے مطابق سخت سزا کا مستحق کیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں نہ تو کوئی قاعدہ قانون ہے اور نہ ہی ایسے حادثات کی روک تھام کیلئے کوئی منصوبہ بندی اور کوئی پالیسی موجود ہے،ایسے حالات میں جب ادارے اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو جائیں تو والیدین ہی ذمہ دار بچتے ہیں جنہیں خود چاہیے کہ وہ ایسی جان لیوا اور خطرناک سواری اور اس سواری کیساتھ خطرناک کھیل کھیلنے کی سختی سے ممانعت کریں،
اپنے بچوں کو باز رہنے کیلئے قائل کریں اور ضرورت محسوس ہونے پر ان کیساتھ سختی سے بھی نمٹیں ،خدانخواستہ اگر وہ آپ کے قابو میں نہیں تو وہ پھر خود کو بھی ایسے اندوہناک سانحات کیلئے تیار رکھیں،کہتے ہیں کہ موت تو برحق ہے مگر زبردستی خود کو موت کے منہ میں دھکیلنا بھی کسی طور پر بھی دانشمندی نہیں ہے،ایسے حادثات میں اگر جان بچ بھی جائے تو پھر بھی بازو، ٹانگ، ناک وغیرہ کی ہڈای ٹوٹنا بھی خطرے سے خالی نہیں اور یہی پھر معذوری کی صورت میں ساری عمرکا پچھتاوابن کر رہ جاتی ہے،اس لیے احتیاط ہی پچھتاوے سے بہتر ہے۔حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے حادثات کی روک تھام کیلئے میڈیا اور دیگر ذرائع کا ستعمال کر کے شعور آگہی مہم اجاگر کرے اور سخت ترین قوانین و قواعدو ضوبط لاگو کروائے بصورت دیگراس خونی چرخے کی وجہ سے سڑکوں پر موت رقص کرتی رہے گی۔