لکھنے کا جنون پیدائشی تھا 1999ء نویں جماعت میںماہنامہ ”پھول”میگزین کی ممبر شپ سے آغاز کیااخترعباس(اختر بھیا) ایڈیٹر ہوا کرتے تھے یقین کریں کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسا خوبصورت ، نرم گو،بااخلاق،باکردار اور شفقت کرنے والا انسان نہیں دیکھا ماہنامہ” پھول ”میں ،پھول کلب،پھول کہانی گھر ،پھول مووی کلب سے لیکر دیگرسلسلے ہواکرتے تھے نوجوان نسل کی تربیت کے لیے ،اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ روزنامہ” نوائے وقت”ہمیشہ سے ایک انسٹیٹیوٹ رہا ہے جس نے سچے اور سچے اہل قلم واہل دانش حضرات کو جنم دیا ہے جنہوں کو اندورن وبیرون ملک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور ملک وقوم کا نام روشن کیا ۔میری مسز اور بچوں کی ایوارڈ یافتہ لکھاریہ بشریٰ نسیم نے مجھ سے بھی پہلے 1995ء میں لکھنے کا آغاز ”پھول اور کلیاں ایڈیشن ”سے کیا جو تاحال (قومی اخبارات )میںجاری ہے ان کے ساتھ ہی میری مسز کی بہن اور موجودہ ہفت روزہ ”ندائے ملت ”نوائے وقت کی سینئر ایڈیٹر ،معروف تجزیہ نگار،فیچر رائٹر ،سیرت نگار رابعہ عظمت نے صحافت میں قدم رکھا اور پھر اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پرآج” سینئر ایڈیٹر ”کے منصب پر فائز ہیں ۔اس وقت کمپیوٹر کا زمانہ عام تو تھا نہیں کہ تحریر کاپی پیسٹ کی اور بس میل کردی ہاتھ سے لکھنا پڑتا تھا اخبارات اور میگزینز میں ایک طرف لکھا ہوتا تھا کہ تحریر بھیجنے کے لیے ضروری ہدایات ۔تحریر غیر معیاری اور کاپی شدہ نہ ہو ،تحریر بامقصد ہو ،تحریر صفحہ کے ایک جانب صاف ستھری لکھیں۔
اس وقت تحریر لکھنے کے لیے پہلے مطالعہ کرنا پڑتا تھا پھر جاکر کئی صفحات کو ضائع کرنے کے بعد ایک تحریر ،تحریر ہوا کرتی تھی پھرماہانہ میگزینز کو دس تاریخ سے پہلے تحاریر پوسٹ کرنا لازم ہوتی تھیں بصورت دیگر تحاریر شائع نہیں ہوپاتیں تھیں پھر اس کے بعد ہر ماہ میگزینز کا شدت سے انتظار ہوا کرتا تھا میگزینز آنے پر دل کو دھڑکا لگا رہتا تھا کانپتے ہوئے ہاتھوں سے میگزینز کی ورق گردانی کرتے کہ پتا نہیں تحریر شائع بھی ہوئی ہے یا کہ نہیں اور جب تحریر شائع ہو جاتی تو یوں لگتا کہ جیسے ہفت اقلیم کی شہنشاہت مل گئی ہو ۔اس وقت موبائل نہیں پی ٹی سی ایل بھی کسی کسی گھر میں ہوا کرتا تھا خط وکتابت کا دور تھا یقین وہی اچھا دور تھا ۔میری پہلی باقاعدہ صحافتی ملازمت روزنامہ”صیانت”ملتان کا میگزین انچارج سے شروع کی اس کے بعد پھر جن اخبارات ،رسائل کے ساتھ منسلک رہا اب نام بھی یاد نہیں باقاعدہ کالم لکھنے کا آغاز 2000ء سے کیا اور الحمدللہ اب تک لاتعداد موضوعات پر سینکڑوں کالم،مضامین،فیچرز لکھ چکا ہوں جو کہ قومی اخبارات اور رسائل کی زینت بن چکے ہیں اور الحمدللہ بن رہے اور تاحال یہ سفر جاری ہے 2010 میں سیاست کا آغاز پاکستان تحریک انصاف سے”انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن ”کابطور ضلعی میڈیا سیکرٹری سے کیا 2013میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کی مسلم یوتھ آرگنائزیشن کا میڈیا ایڈوائزر لاہور سٹی منتخب ہوا ،آزاد منش انسان تھا خوشامد،چاپلوسی اور غلط بات پر جی حضوری نہ کرسکا اور بہت جلد سیاست کو خیر آباد کہہ دیا۔
مسلک اہلحدیث کے عظیم بزرگ شیخ الحدیث ،ولی کامل ،خطیب العصر مولانا عبدالرشید مجاہدآبادی کی زیر سرپرستی اورحضرت مولانا حافظ عبدالروف اور شیخ المشائخ مولانا حافظ مصطفی صادق کی ادارت میں ماہنامہ ”ام الہدی”میگزین کا تقریبا سال کے قریب انچارج رہا ۔2013میں ایک آدھ کالم نگاروں کی تنظیموں نے سوشل میڈیا فیس بک پر سراٹھایا تو ایک تنظیم کا باقاعدہ حصہ ایک ہزارروپے دیکر بناوعدہ کیا گیا تھا کہ اس ہزارروپے میں آپکو تین سو وزیٹنگ کارڈ بھی ساتھ ملیں گئے اس وقت تقریباً سوروپے میں بننے والا تنظیم کا پی وی سی کارڈ راہ چلتے دیا گیا جس پر عہدہ ممبر لکھا ہوا تھا اور ظلم تو یہ تھا جو عہدیدار تھے وہ نوآموز تھے جن کو یقینا صحافت کی( ص )کا بھی علم نہیں تھا اور کارڈ پر دفتر کا ایڈریس بھی موجود نہ تھا لٹ مارکا اچھا منصوبہ تھا اس کے بعد جب میں نے تنظیم میں تنظیمی مافیا کو بے نقاب کیا تو بہت سے لوگوں کے دلوں میںکانٹے کی طرح چھبا اس کے بعد پھر ایک اور تنظیم نے خود ساتھ رکھا مگر یہ ساتھ بھی زیادہ دیر نہ چل سکا ۔سب سے پہلی بات کہ بظاہر ادبی اور کالم نگاروں کی نظر آنے والی تنظیمیں کسی نہ کسی سیاسی اور مذہبی جماعت کا ونگ تھیں اور دوسری بات نئی لکھنے والی خواتین کو ہراساں کرنے کی آماجگائیں تھیں جتنی بے ادبی اور بے حیائی میں نے ان تنظیموں میں دیکھی شاید ہی کہیں دیکھی ہو گی۔
پہلے کالمز لکھے جاتے تھے آج کالم چوری کیے جاتے کاپی پیسٹروں نے اہل قلم افراد کا قتل عام کیا ہے ۔آج وطن عزیز میں ہر بندہ کالم نگار،تجزیہ نگار بن چکا ہے سستی شہرت کی خاطر شعائر اسلام کا مذاق اڑانا اور محسنین کوغدار کہنا (افواج پاکستان)کے خلاف بولنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے ۔آج صحافت بھی ایک بہت بڑا مافیا بن چکا ہے ایک بندہ اٹھتا ہے اور ایک تنظیم کا کوئی نام رکھ کر کسی نہ کسی اخبار کے ایڈیٹر ،ایڈیٹوریل ایڈیٹر یا میگزین ایڈیٹر کو اس کا سرپرست بنالیتا ہے پھر نوآموز لکھنے والے والیوں سے ماہنامہ کالم شائع کروانے کی ممبر شپ کے نام پر تین ہزار،پانچ ہزار روپے لیا جاتا اور اگر خواہشمند کالم خود نہ لکھ سکتا ہوتو دس ہزارروپے میں اس کے ماہنامہ کے کالمز خود سے لکھ کر شائع کیا جاتے ہیں ۔خواتین کو فون پر رابطہ رکھنے کے لیے پابند کیا جاتا اکثر تنظیموں نے کسی نا کسی مذہبی ،سیاسی جماعت کے کسی ایک بندے کو اپنا طاغوت بنایا ہوتا ہے جس کا کام صرف اپنی پی آر او کے لیے پیسے خرچ کرنا ہوتے ہیں بہت سے حقائق سنسر کردئیے ہیں ۔ایسے میں دو ہزار سولہ میں ”بلومنگ رائٹرز آرگنائزیشن پاکستان”کی بنیاد رکھی میرے ساتھ مجاہد ابن مجاہد ،غازی ابن غازی ،مجاہد اسلام جنرل حمید گل کے فرزنذ ارجمند محمد عبداللہ حمید گل چیئرمین تحریک جوانان پاکستان کشمیر ،سید محمد قاسم ،رابعہ عظمت اور بشریٰ نسیم نے میرا ساتھ دیا اور میں نے کچھوے کی چال کو زیادہ ترجیح دی ۔اور آج الحمدللہ یہ تنظیم ایک کارواں بن چکا ہے ہمارا ماٹوکہ ہمارا کسی تنظیم کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں۔
ہمارا ایجنڈا واطیعواللہ واطیعوالرسول اور صرف پاکستان ہے ۔دفاع ِاسلام دفاعِ پاکستان اور مثبت صحافت کی علمبردار تنظیم :اغراض ومقاصد:-1عقیدہ ختم نبوت ۖ پر ایمان رکھنا اور اسکا دفاع کرنااس کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنا(دفاع صحابہ)۔2قلم کے ذریعے اسلام ،پاکستان اور افواج پاکستان کا دفاع کرنا۔3 – پڑھے لکھے افراد کے اندرجذبہ اسلام اور جذبہ حب الوطنی کو فروغ دینا۔-4سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے شعائر اسلام کا تحفظ کرنا-5-پڑھے لکھے دین بیزار افراد کو دلائل اور حسن اخلاق کے ساتھ انکی اصلاح کرنا۔6۔دنیا بھر میں بسنے والے مظلومیت کا شکار مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا۔7۔قلم کی حرمت کو پامالی سے بچانا ،زد صحافت کا خاتمہ کرنا۔8۔نوجوانوں کو سوچ دینا ،ذہنی یرغمالی سے آزادی دلانا ،فرسودہ روایات کا خاتمہ کرنا۔-9نئے لکھنے والوں کی اصلاح کرنا ۔تنقید برائے تنقید کا خاتمہ اور تنقید برائے اصلاح کا فروغ ۔10۔پڑھے لکھے افراد کو صوفیوں،خودساختہ دانشوروں اور نام نہاد مذہبی سکالرز کے جاہلانہ عقائد سے آزادی دلوانا۔ان عظیم مقاصد کی تکمیل کے لیے ہم اس تنظیم کی بنیاد رکھی ،میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل آج اس تنظیم میں بیک بون طارق مسعود وٹو سمیت بہت سے قیمتی اور مدبر افراد شامل ہیں جن میں علی عمران شاہین ،ابوبکر قدوسی ،ضیاء الرحمن چترالی ،عاصم کبوہ انعام الحسن کاشمیری ،بلال شوکت آزاد ،انیس الرحمن باغی ،اظہار الحق ہزاروی ،سید آصف جاہ جعفری،عاکف غنی ،محمد احمد کمالی،اعتزاز چوہدری، عبدالحنان ،مسرت شیریں،تسلیم اکرام،فاطمہ قمر ،رضیہ سبحان ،محمد شاہد محمودسمیت دیگر احباب شامل ہیں۔