تحریر: نجیم شاہ صرف اتنا معلوم تھا کہ پاکستان میں تین طرح کے پاسپورٹ جاری ہوتے ہیں جن میں ایک بلیو پاسپورٹ بھی ہے لیکن یہ قطعی معلوم نہ تھا کہ بلیو پاسپورٹ کے فوائد کیا ہیں اور پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں رحمان ملک نے اِن کا جمعہ بازار کیوں لگا رکھا تھا۔ اب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ منظور قادر کاکا کے بلیو پاسپورٹ کے ذریعے گلگت بلتستان کے راستے پہلے ہمسایہ ملک چین اور پھر وہاں سے کینیڈا فرار نے نہ صرف اس پاسپورٹ کے فوائد گنوا دیئے ہیں بلکہ ہم یہ بھی جان گئے کہ پاکستان میں اس قسم کے پاسپورٹ کی اشد ضرورت کیوں ہوتی ہے۔ دنیا کے ستر سے زائد ممالک کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ ہے کہ جن مسافروں کے پاس سفارتی اور بلیو پاسپورٹ ہوں گے انہیں ایئر پورٹ پر ہی ویزہ مل جائے گا۔
اس نوعیت کے پاسپورٹ رکھنے والوں سے ایئرپورٹس پر پوچھ گچھ نہیں ہوتی اور وہ مزے سے گزر جاتے ہیں جبکہ گرین پاسپورٹ والوں کو ایک الگ قطار میں کھڑا کر کے تلاشیاں لی جاتی ہیں۔ بلیو پاسپورٹ کا مقصد یہ تھا کہ جب پاکستان سے کوئی پارلیمانی وفد باہر جائے یا سرکاری افسران کسی کام سے دوسرے ملکوں میں جائیں تو انہیں سرکاری طور پر یہ پاسپورٹ دیا جائے تاکہ انہیں دوسرے ممالک میں تعاون اور پروٹوکول مل سکے۔ پہلے ایم این ایز ، سینیٹرز اور صوبائی اسمبلی کے ممبران نے اپنا نام اس فہرست میں ڈلوایا اور پھر سابق ارکان اسمبلی کو بھی یہ حق دے دیا گیا۔
بات اگر صرف وی آئی پی شخصیات تک محدود ہوتی تو ٹھیک تھی مگر پچھلے چند برسوں میں بلیو پاسپورٹ حاصل کرنے کا جو کاروبار شروع ہوا، اس میں سیاست دانوں، ان کے بیوی بچوں اور والدین سے ہوتے ہوئے دو ہزار سے زائد کاروباری شخصیات کو بھی یہ پاسپورٹ جاری ہو چکے ہیں۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ ان پاسپورٹس پر سمگلنگ کر رہے ہیں یا کسی اور دھندے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور غیر ملکی ایئر پورٹس پر پاکستان کے سرکاری افسر بننے کی اداکاری کر کے گزر جاتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں بیورو کریسی اور سیاست دانوں نے مل کر حیران کن انداز میں نہ صرف اپنے رشتہ داروں، بیوی بچوں اور ریٹائرڈ سرکاری افسران کو بلیو پاسپورٹ دلائے بلکہ ذاتی دوستوں کو بھی نوازا گیا۔ یہاں تک کہ دو سال قبل اُس وقت کے ڈی جی پاسپورٹ ذوالفقار چیمہ کو عدالت میں یہ انکشاف کرنا پڑا کہ وزارت داخلہ کے کہنے پر سائیکل پر سوار پنکچر لگانے والوں کو بھی بلیو پاسپورٹ جاری کئے گئے۔
Blue Passport
دلچسپ طور پر پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے ایسے افراد کو بلیو پاسپورٹ کا اجراء کیا جو کہ اس کے اہل ہی نہیں تھے، اور ایسے افراد کو بھی بلیو پاسپورٹ جاری کیے گئے جن کی تاریخ جرائم سے منسلک تھی لیکن وہ اس وقت کے حکمرانوں کے قریب تھے۔ دوسری طرف کچھ عرصہ قبل یہ خبر بھی آئی تھی کہ وفاقی وزارتِ داخلہ نے صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین اور اُن کی اہلیہ کو تو بلیو پاسپورٹ جاری کر دیئے ہیں لیکن اُن کے بیٹوں اور بہوئوں کو یہ خصوصی اعزاز دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اِس کے بعد کیا ہوا؟ راوی خاموش ہے۔ اب اگر بعد میں واقعی صدرِ مملکت کے بیٹوں اور بہوئوں کو بلیو پاسپورٹ جاری نہیں ہوئے تو یہ ایک بہت اچھی خبر ہے اور صدر کی شرافت بھی ظاہر کرتی ہے۔
تازہ رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارتِ داخلہ نے پاکستان اور آزاد کشمیر کے سابق صدور، وزرائے اعظم، سابق وزرائے اعلیٰ کے سفارتی (ڈپلومیٹک) اور بلیو پاسپورٹ (سرکاری پاسپورٹ) کی سہولت ختم کر دی ہے البتہ چاروں صوبوں کے سابق گورنرز سفارتی اور بلیو پاسپورٹ رکھنے کے اہل ہونگے جبکہ اس فیصلہ کا اطلاق گلگت بلتستان کیسابق گورنرز پر نہ ہو گا۔ یقیناً یہ موجودہ حکومت کا ایک خوش آئند اقدام ہے۔
ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ اس پاسپورٹ کو حاصل کرنے والے لازماً دو نمبر کے کاموں میں ملوث ہوتے ہیں ورنہ عام پاسپورٹ سے سفر کرنے میں کسی شریف بندے کو کیا مشکل ہو سکتی ہے۔ یہی وزارتِ داخلہ ماضی میں غیر مجاز افراد کے بلیو پاسپورٹ منسوخ کرنے کا حکم بھی جاری کر چکی ہے۔ اگر وفاقی وزارتِ داخلہ واقعی غیر مجاز افراد کے پاسپورٹ منسوخ کر چکی ہے اور کوئی حکومتی مصلحت آڑے نہیں آئی تو پھر چوہدری نثار صاحب ہمت کرکے ان غیر مجاز افراد کی فہرست بھی جاری کر دیں ورنہ جس طرح سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ منظور قادر کاکا بلیو پاسپورٹ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے براستہ گلگت بیرون ملک فرار ہوئے ہیں نہ جانے کتنے ایسے کردار اب بھی ملک میں موجود ہیں جو رینجرز اور نیب کے مشترکہ آپریشن کے ڈر سے اور بڑے ایئر پورٹس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں سے اوجھل ہو کر بیرون ممالک بھاگنے کیلئے چور راستوں کی تلاش میں ہیں۔