لیبیا (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کے مہاجرین کے امدادی ادارے اور عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق رواں برس لیبیا کے ساحلوں کے قریب کسی کشتی کی تباہی کے اب تک کے سب سے بڑے واقعے میں کم از کم 45 افریقی تارکین وطن سمندر میں ڈوب گئے۔
یو این ایچ سی آر اور آئی او ایم کی طرف سے گزشتہ پیر کو پیش آنے والے اس واقعے کے بارے میں آج جمعرات کو دیے گئے ایک بیان میں ایسے واقعات کے بعد ریسکیو کارروائیوں اور ڈوب جانے والے تارکین وطن کی تلاش کے کاموں میں تیزی لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا، ” 37 زندہ بچ جانے والے تارکین وطن، جن کا تعلق خاص طور سے سینیگال، مالی،چاڈ اور گھانا سے ہے، کو ماہی گیروں نے بچایا اور انہیں ساحل پر پہنچنے کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔‘‘
ان عالمی اداروں کی طرف سے سامنے آنے والے بیان سے یہ پتا بھی چلا ہے کہ آئی او ایم کے عملے کو یہ بھی بتایا گیا کہ 45 دیگر تارکین وطن، جن میں پانچ بچے بھی شامل ہیں، کی موت اُس وقت واقع ہوئی جب اس بڑی کشتی کا انجن زواہراہ کے ساحل کے قریب دھماکے سے پھٹ گیا۔
بحیرہ روم کے رستے سب سے زیادہ تارکین وطن یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
جنگ سے تباہ حال مغربی افریقی ملک لیبیا بحرہ روم کے راستے یورپ پہنچنے کے خواب دیکھنے والے تارکین وطن کا مرکزی روٹ ہے۔ اس ملک کی اپنی معاشی، معاشرتی اور سیاسی صورتحال دگرگوں ہے تب بھی وہاں اس وقت ایک اندازے کے مطابق 654,000 تارکین وطن کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہیں انتہائی تنگ رہائش گاہیں اور صحت کی نہ ہونے کے برابر سہولیات میسر ہیں۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین کے امدادی ادارے کے مطابق پیر کو پیش آنے والے اس حادثے میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد اس سال بحیرہ روم سے لیبیا کے راستے یورپ پہنجنے کی کوششوں کے دوران راستے ہی میں ہلاک ہو جانے والے تارکین وطن کی مجموعی تعداد 302 ہو گئی ہے۔
حالیہ مہینوں کے دوران سینکڑوں تارکین وطن کو، تشدد پھیلنے کے خطرات کے باوجود سمندر میں ہی روک کر ان کے بحری جہازوں یا کشتیوں کو واپس لیبیا بھیجا جاتا رہا ہے۔ یورپی یونین کے پروگرام کی عدم موجودگی میں لیبیا کے سرکاری جہازوں، جنہوں نے ریسکیو کی ذمہ داری لی تھی، کے ساتھ سات ہزار سے زائد افراد کو واپس لیبیا بھیج دیا گیا۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین کے امدادی ادارے یو این ایچ سی آر اور عالمی ادارہ برائے مہاجرت آئی او ایم کے مطابق لیبیا کے ساحلی علاقوں کو تارکین وطن کے لیے کسی بھی صورت محفوظ بندر گاہی علاقے نہیں سمجھا جانا چاہیے اور تارکین وطن کو وہاں نہیں اترنا چاہیے۔ ان ایجنسیوں نےایک متبادل اسکیم کی ضرورت پر زور دیا ہے جس کے تحت وہ ان تارکین وطن کو بحفاظت بندرگاہوں تک پہنچا سکیں یا انہیں وہاں روکا جا سکے۔