تحریر : شاہ فیصل نعیم یہ سفارت خانہ اسلامی جمہوریہ ایران لاہور کا منظر ہے۔ ویزہ کے لیے آنے والوں کی ایک لمبی لائن ہے دھوپ کی شدت اپنا آپ دکھا رہی ہے میں بھی پسینے سے شرابور لائن میں کھڑا ہوں۔ میرے بعد کھڑا شخص بار بار کہے جار ہا ہے: “مجھے معلوم ہے انہوں نے مجھے ویزہ نہیں دینا”۔ میں مسلسل تین دن سے اُس کی یہ گردان سن رہا ہوں اس قدر مایوسی کو دیکھتے ہوئے میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔
“بھائی جی اگر آپ بُرا نا مانیں تو میں کچھ کہوں”؟ “کہو یار چلو باتوں باتوں میںکچھ وقت گزر جائے گا۔ شاید آج اپنی باری بھی آجائے”۔ “بھائی آپ بڑے عجیب شخص ہیں اس لیے میں جو کچھ کہنے جا رہا ہوں وہ بھی عجیب ہی ہو گا۔ آپ مجھ سے پہلے کے یہاں آرہے ہیں تین دن سے میں آپ کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ نے بتایا ہے کہ آپ ہر روز صبح ٥ بجے اُٹھتے ہیں کھانا کھاتے ہیں ، کاغذات پکڑتے ہیں اور لاہور کے لیے نکل آتے ہیں۔ ٨ سے ٩ بجے تک آپ یہاں پہنچتے ہیں سارادن شدید گرمی میں آپ لائن میں کھڑے ہوتے ہیں اور یہ کہتے کہتے کہ مجھے علم ہے انہوں نے مجھے ویزہ نہیں دینے شام کو گھر چلے جاتے ہیں۔ صبح گھر سے نکلتے ہوئے ماں پوچھتی ہے: “بیٹے کچھ کام بنا کہ نہیں”؟ تم یہ کہتے ہوئے : “ماں بس آج کام ہو جائے گا “۔ اُسے بھی دھوکا دیتے ہو۔بھائی !اگر میں کہیں کچھ بھی اپنی طرف سے شامل کروں تو مجھے روک دینا”۔
وہ میری باتیں سنتا جا رہا تھااور اُس کے چہرے کا رنگ بدلتا جا رہا تھا۔ میں نے اپنی بات آگے بڑھائی: “اندر جو سفیر بیٹھا ہے وہ پہلے آپ کا انٹرویو لے گا اگر آپ میں کوئی خامی نظر آئی تو ہی آپ کو ریجیکٹ کرے گا ۔ مگر اندر جانے سے قبل آپ ناجانے خود کو کتنی بار ریجیکٹ کر چکے ہیں۔
اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کو ویزہ نہیں ملنا تو پھر روز ٥ بجے کیوں اُٹھتے ہو؟سارا سارا دن اِن لائنوں میں کیوں ذلیل ہوتے ہو؟ اور والدین کا پیسا کیوں برباد کر رہے ہیں؟ اگر زندگی میں کچھ چاہیے تو خود پر اعتماد کرنا سیکھو میرے دوست اگر خود پر یقین نہیں تو کوئی اور کام کرو کل سے لائن میں کھڑے نا ہونا”۔ میں ابھی اُسے کچھ واقعات سنانا چاہتا تھا مگر میری باری آگئی وہ ابھی لائن میں کھڑا ہے کچھ سو چ رہا ہے شاید وہ میری باتوں پر غور کرے۔
Visa
خود اعتمادی کی جب بھی بات آتی ہے مجھے میرے ایک پروفیسر صاحب یاد آتے ہیں جنہوں نے اپنے زمانہ ِ طالب علمی کاایک واقعہ سناتے ہوئے کہا تھا: “میرا ایم۔اے۔ انگلش کا نتیجہ آیا تو میرا دوست بھاگتا ہوا میرا پاس آیا اور آکر خبر دی کہ اس سال رزلٹ بہت بُرا رہا ہے پوری کلاس میں سے صرف دو طالب علم پاس ہوئے ہیں۔
میں نے پوچھا: “دوسرا کون ہے “؟ میرے دوست نے کہا : “تم نے دوسرے کا ہی کیوں پوچھا ؟ یہ کیوں نہیں پوچھا کہ پہلا کون ہے”میں نے کہا: “میرے دوست اگر تم آکر یہ کہتے کہ اس سال صرف ایک ہی طالب علم پاس ہوا ہے تو میں کہتا وہ طالب علم میں ہی ہوں۔ اس لیے میں نے پوچھا کہ دوسرے نمبر پر کون ہے ؟ کیونکہ پہلے نمبر پر تو میں ہوں”۔ میرا دوست میری بات سن کر حیران رہ گیا۔ جب انسان کو اپنی ذات پر اعتماد ہو اور اُس نے محنت کرنے میں بھی کوئی کسر نا چھوڑی ہو تو پھر خدا اُس کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ کامیابی ضرور اُس کے قدم چومتی ہے”۔ میں اکثر سوچتا ہوں کشتیاں یونہی نہیں جلائی جاتیں ایسا کرنے کے لیے طارق بن زیاد جیسا یقین چاہیے۔
زندگی کے سفر پہ گامزن اُس مسافر کو گھر پہنچنے میں دیر ہو گئی جب وہ دریا کنارے پہنچا تو معلوم ہوا کہ ملاح گھر وں کو جا چکے ہیں وہ بڑا پریشان ہوا کہ اب گھر کیسے پہنچے ؟دریا کنارے ایک چھوٹی سی مسجد تھی جہاں بیٹھے مولوی صاحب “اللہ!اللہ!” کر رہے تھے ۔ وہ مسافر مولوی صاحب کے پاس گیا اور اپنی مشکل بتائی۔
مولوی صاحب نے کہا: “بیٹا اللہ پر یقین ہے نا”؟ “جی مولوی صاحب اللہ پر یقین تو بالکل ہے”۔ “تو پھر مشکل کس بات کی ہے؟ اللہ کا نام لو اور پانی پر چلنا شروع کر دو کچھ نہیں ہوگا”۔ اُس شخص نے اللہ کا نام لیا اور پانی پر چلنا شروع کر دیا اور وہ واقعی ہی پانی پر چلتے ہوئے دریا پار کرگیا۔ اب مولوی صاحب کو بھی گھر جانا تھا اُنہوں نے بھی دریا پار کرنا تھا وہ دریا پار کرنے والے شخص سے اپنی مشکل بیان کرنے لگے۔ وہ شخص بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا: “مولوی صاحب ! آپ نے ہی تو بتا یا ہے کہ اللہ کا نام لو او ر دریا پار کرجائو آپ کے کہے پر عمل کرتے ہوئے میں نے دریا پار کیا اور اب آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ دریاکیسے پار کرنا ہے۔ اللہ کا نام لیں اور چلنا شروع کردیں۔ دریا پار ہوجائے گا”۔
مولوی صاحب نے کہا: “نہیں میں ڈوب جائوں گا”۔ جب اُس شخص نے یہ الفاظ سنے تو اُس نے یہ جملہ کہا اور چل دیا: “آپ واقعی ڈوب جائیں گے مولوی صاحب! وہ اس لیے کہ آپ کے پاس علم تو ہے مگر آپ یقین جیسی دولت سے محروم ہیں”۔ قارئین! دنیا میںآپ کو جتنی بھی عظمت کی مثالیں ملتی ہیں اُن کے پسِ منظر میں جو طاقت نظر آتی ہے وہ یقین ہی ہے۔