تحریر : کوثر رحمتی خان واہگہ بارڈر پر پریڈ ختم ہونے کے بعد خودکش حملے سے ساٹھ جانیں گئیں تو دوسری طرف زندہ دلان لاہور وطن کی محبت میں اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر بڑی تعداد میں اگلے ہی روز پریڈ دیکھنے پہنچ گئے دوسرے روز واہگہ بارڈر مارکیٹ میں بکھرا سامان اور بند دکانیں دہشت گردی کی داستان سناتا رہا اور دھماکے کی جگہ پر ہر طرف تباہی کے مناظر نظر آئے۔ جب دھماکہ ہوا تھا تو ہوٹلوں پر کڑاہیوں میں کھانا موجود تھا جبکہ برگر پوائنٹ پر برگر، انڈے موجود تھے جس جگہ خودکش حملہ آور کھڑا تھا وہاں دو چھوٹے گڑھے بن گئے تھے اور سائن بورڈ اور دیواروں پر بال بیرنگ لگنے کے نشان تھے، دکانوں اور شوکیس کے شیشے ٹوٹے پڑے تھے۔ ڈا ئریکٹر جنرل پاکستان رینجرز (پنجاب) میجر جنرل خان طاہر جاوید خان کی خصوصی ہدایت پر واہگہ بارڈر پر پرچم اْتارنے کی پرْوقار تقریب اْسی روایتی جوش و جذبے کے ساتھ کی گئی جس طرح ایک دن پہلے ہونیوالے خود کش حملے سے پہلے کی جاتی تھی۔گزشتہ تقریب کے مہمان خصوصی کمانڈر 4کور لاہور لیفٹیننٹ جنرل نوید زمان تھے
ان کے علاوہ جی او سی10 /DIV میجر جنرل عامر عباسی اور جی او سی 11 /DIV میجر جنرل فدا حسین بھی پریڈ کی تقریب میں موجود تھے۔ سینئر آرمی فوجی افسروں نے پنجاب رینجرز کے بہادر اور غیور جوانوں کی ڈرل کے اعلیٰ معیار،جذبہ حبْ الوطنی اور بلند حوصلے و عزم کو سراہا۔ تقریب میں شریک ہزاروں لوگوںنے پاک فوج ،پنجاب رینجرززندہ باد کے نعرے لگائے۔دھماکے کے دوسرے روز شام کے وقت ہزاروں شہری واہگہ بارڈر پہنچ گئے اور پرچم اتارنے کی تقریب کی رسم کے دوران ملک دشمنوں کے عزائم کو للکارتے ہوئے پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد، دہشت گردی مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگاتے رہے۔ اس موقع پر ان کا جوش و خروش دیدنی اور بے مثل تھا جو ملک دشمنوں کیلئے عبرتناک منظر پیش نظر کررہا تھا۔ شہریوں کے اس جذبے کو دیکھ کر رینجرز کے اہلکار بھی پہلے سے زیادہ پرعزم اور پرجوش دکھائی دے رہے تھے۔ دہشت گرد عناصر زندہ دلان لاہور کا جوش و خروش کم نہ کرسکے۔ واہگہ بارڈر پر شام کے وقت پرچم اتارنے کی تقریب معمول کے مطابق ہوئی۔ عوام کی بڑی تعداد مختصر نوٹس پر وہاں پہنچ گئی، بڑی تعداد میں مردوں، عورتوں اور بچوں نے شرکت کی۔ تقریب کا آغاز ہوا تو لوگوں نے پاکستان زندہ باد اور نعرئہ تکبیر بلند کئے۔
شہریوں نے پاک فوج کے حق میں بھی نعرے بلند کئے۔ تقریب کے وقت کور کمانڈر لاہور اور ڈی جی رینجرز نے بھی شرکت کی۔ تقریب دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ایک روز قبل دہشت گردی میں شہری اپنے پیاروں سے محروم ہوچکے ہیں۔ شہری جوش جذبے سے پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد، نعرئہ تکبیر اللہ اکبر، جیوے جیوے پاکستان، ذرا زور سے بولو پاکستان، ذرا پیار سے بولو پاکستان کے نعرے بلند کررہے تھے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہناہے کہ واہگہ بارڈر پر تقریب قوم کے جذبے کو ظاہر کرتی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے عوام اور فوج متحد ہیں۔ واہگہ بارڈر پر یہ پْروقار تقریب قوم کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل نوید زمان نے واہگہ بارڈر پر تقریب کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ اس طرح کے بزدلانہ حملے قوم کا جذبہ اور حوصلہ نہیں توڑ سکتے۔ میں خصوصاً زندہ دلان لاہور کے جوش و جذبہ کو سراہتا ہوں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سرحد کے اس طرف لوگوں کو سانپ سونگھا ہوا ہے لیکن یہاں نعرے لگ رہے ہیں۔ دہشت گردی کی کارروائیوں سے قوم کا حوصلہ نہیں توڑا جاسکتا۔ قبل واہگہ بارڈر پر خودکش حملے میں 59 سے زائد افراد کی شہادت اور 125 سے زائد زخمی ہونے کے باوجود پاکستان کے دشمن پاکستانی شہریوں کے حوصلے پست نہ کر سکے بلکہ ان کا جوش و جذبہ مزید بڑھ گیا۔ شہریوں کا کہنا تھاکہ دہشت گرد بہادر قوم کو خوفزدہ نہیں کرسکتے۔ دہشت گردی کا خوف وطن سے محبت کو ختم نہیں کرسکتا۔
Wagah Border
قوم کے حوصلے بلند ہیں، دہشت گردی سے جھکایا نہیں جاسکتا، شہریوں نے دہشت گردی مردہ باد کے نعرے بھی لگائے۔ پاکستان کے لئے جان بھی قربان ہے۔ بم دھماکہ کے بعد پتہ چلا کہ پاک فوج نے پریڈ کھول دی ہے، میں دوستوں کو لے کر یہاں پہنچ گیا۔ ایک خاتون نے کہا کہ ہمارے حوصلے بلند ہیں، بھرپور انجوائے کررہے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعے کا افسوس ضرور ہے لیکن یہ تقریب اچھی لگ رہی ہے۔ ایک بچی نے بتایا کہ ہمیں اپنی قوم سے یکجہتی ظاہر کرنی ہے۔ ہم دھماکہ کے باوجود جوش و جذبہ سے یہاں پہنچے ہیں۔پنجاب حکومت کے ترجمان سید زعیم حسین قادری نے صوبائی وزیرداخلہ کرنل شجاع خانزادہ اور مشیرصحت خواجہ سلمان رفیق کے ہمراہ سانحہ واہگہ پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساری قوم یکسو اور پاک افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور انشاء اللہ ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ اس افسوسناک سانحہ میں شہید ہونے والوں کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔ واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب کے دوران عوام کا جوش و خروش اس امر کا ثبوت ہے کہ قوم دہشت گردی کو مسترد کر کے ملک کی بقاء کی جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے بہادر افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عزب کامیابی سے ضرور ہمکنار ہو گا۔ عوام باہم متحد ہیں اور ساری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ملک و قوم کے تحفظ کے لئے یکجان ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں غیرملکی ہاتھ کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
البتہ اصل حقائق سامنے لانے کے لئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایات پر تشکیل دے دی گئی ہے’ جس میں پولیس’ آئی ایس آئی’ رینجرز’ سپیشل برانچ اور کائونٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے افسران شامل ہیں جو 2سے 3 دن میں اپنی رپورٹ پیش کر دیں گے۔واہگہ باڈر پر ہونے والی دہشت گردی کے بعد حساس اداروں کے مطابق اس خود کش حملہ آور کو لاہور میں ٹھہرانے والے، لاہور میں اس کو رکھنے والے، واہگہ باڈر کی ریکی کرنے والے افراد کون ہیں کیونکہ حساس اداروں کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق حملہ آور کا تعلق لاہور سے نہیں تھا جن ابتدائی لائن پر تفتیش کی جارہی ہے ایک اعلیٰ حساس ادارے نے دو ٹیمیں بنائی ہیں ایک تو پولیس کے ساتھ مل کر یہ پتہ لگا رہی ہے کہ اگر وہ واہگہ باڈر پر اردگرد کی کسی آبادی میں رہ رہا تھا تو وہ لوگ کون تھے کیونکہ واہگہ کے اردگرد سمگلر بھی رہتے ہیں جن کے بھارت میں رابطے ہیں اگر وہ حملہ آور بارڈر کے اردگرد کی آبادی میں رہا ہے پیدل چل کر یہاں آیا ہے تو اس کی مدد کسی سمگلنگ میں ملوث گروہ نے کی۔ افغانستان یا بھارت کا نیٹ ورک ہو سکتا ہے جس سے اس سمگلنگ گروہ کو یہاں پر اس فرد کو رکھنے کی ذمہ داری دی گئی تھی تاہم اس معاملے میں ایک بات پر مزید غور کیا جارہا ہے کہ اس سمگلر گروہ کے پاس خود کش جیکٹ بنانے کی اور اس کو باندھنے کی اہلیت تو نہیں تھی وہ مدد کس نے فراہم کی۔ جبکہ دوسری ٹیم اس بات کی تفتیش کر رہی ہے کہ حملہ آور لاہور لایا گیا اسے کچھ روز پہلے پریڈ دیکھائی گئی تاکہ اس کو فزیکل اندازہ ہو جائے کہ وہ کس جگہ آکر کارروائی کرے گا۔
Pak Army
اس کو دھماکہ خیز مواد اس کے اوپر کسی نے وہاں پر فٹ کیا ہے جو ایک ٹیکنیکل کام ہے تاہم وہ دھماکہ خیز مواد کہیں وہاں پر کام کرنے والے کسی ادارے کے اہلکار کی مدد سے تو نہیں آیا، وہ دھماکہ خیز مواد فٹ کرنے والے افراد کون تھے اور وہ وہاں کسی فیملی کی صورت میں آئے تھے یا اکیلے آئے تھے کیونکہ خواتین کے ساتھ آنے کی صورت میں چیکنگ زیادہ نہیں ہوتی وہاں پر پہلے سے موجود خود کش سامان ان کو کس جگہ رکھا ہوا ملا تھا جہاں انہوں نے خود کش بمبار کو جیکٹ باندھی تھی اور خود وہاں سے نکل گئے تاہم کسی دوسرے خود کش بمبار کی طرف سے وہاں سے بھاگ جانے کے عمل کو ناقابل یقین قرار دیا جارہا ہے کیونکہ دوسر ا خود کش بمبار زیادہ ٹیکنیکل ایکسپرٹ نہیں ہو تا۔ ان کو صرف دھماکہ خیز مواد کو چلانے کی تربیت دی جاتی ہے ماضی میں ہونے والی تمام تفتیش اور پکڑے جانے والے خود کش بمباروں سے تفتیش سے خفیہ اداروں کی رائے ہے کے وہ خود کش جیکٹ بنانے، دھماکہ خیز مواد کی شدت سے زیادہ آگاہ نہیں ہوتے ہیں اسلئے اندر کی مدد کے بغیر یہ کاروائی ممکن نہیں ہے اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔