ہم کتنی لاشیں اور اٹھائیں گے

India and Afghanistan

India and Afghanistan

تحریر : محمد نواز بشیر
پرانے دور میں ہندو عورتیں اپنے خاوند کا نام نہیں لیا کرتی تھیں۔ ایسی ہی ایک عورت جس کے خاوند کا نام مولی چند تھا وہ دکان سے مولی خرید کر لائی تو اس کی ہمسائی نے اس سے پوچھا کہ بہن کیا خرید کر لائی ہو تو اس عورت نے جواب دیا کہ پتوں والی خرید کر لائی ہوں، ہمسائی تعجب سے حیران کر بولی بہن پتوں والی کیا ہوتی ہے تو وہ عورت کہنے لگی کہ جو سفید ہوتی ہے۔ کچھ یہی حال ہمارے ملک میں اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھے حکمرانوں کا ہے جو ملک خداداد میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں افغانستان اور بھارتی مداخلت کے واضح ثبوت ملنے کے باوجود بھی بھارت کا نام زبان پر کھُل کر لانا پاپ سمجھتے ہیں۔

اب تو یہ بات اچھی طرح دنیا بھی جاننے لگی ہے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین استعمال کر کے پاکستان کے معصوم شہریوں کا خون بہا رہا ہے کیونکہ بھارت کے سابق آرمی چیف اور نریندر مودی کے دست راست اجیت دوول خود بھی عہدہ سنبھالنے کے بعد نہایت صراحت سے کئی بار بتا چکا ہے کہ پاکستان نے جس پراکسی وار کا آغاز کیا ہے، بھارت اس کا جواب پاکستان کو اُسی طریقے سے ہی دے گا۔ اجیت دوول کا دعویٰ ہے کہ بھارت کے پاس پاکستان کے مقابلے میں زیادہ وسائل اور صلاحیت ہے۔ بھارت دس روپے کی جگہ پاکستان کے خلاف پچاس روپے صرف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب یہ بھارتی دعوے دھمکیوں کے مراحل سے گزرتے ہوئے عملی شکل اختیار کر رہے ہیں، اب لگ تو یوںرہا ہے کہ جیسے پاکستان میں بھارتی دعووںکی تکلیف محسوس کی جا رہی ہے۔ کیونکہ اب تو سب جانتے ہیں کہ بھارت ہر نئے دن افغانستان اور امریکہ کے ساتھ مل کر اپنے تسلط میںمسلسل اضافہ کر رہا ہے اور اپنے گناہوں کا بوجھ پاکستان پر ڈالنے کے علاوہ تخریب کاری کے وہ سارے ہتھکنڈے پاکستان کے خلاف آزما رہا ہے جس کا الزام وہ پاکستانی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد کرتا رہتا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ملک میں اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی پاکستان کی حکومت بھارت کے خلاف کھُل کر بولنے کو تیا ر نہیں۔ حالانکہ چاہیئے تو یہ تھا کہ حکومت پاکستان ملک میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر اقوام عالم کی ہمدردیاںاور توجہ پاکستان کی جانب مبذول کرواتی اور پاکستان میں گرفتار ہونے والے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی راء کے حاضر سرو س نیول آفسر کلبوشن یادیو کو لے کر اقوام عالم کے سامنے بھارت کی اس دہشت گردی کوکھُل کر بے نقاب کرنے کے ساتھ دنیا کے سامنے یہ بھی رکھا جاتا کہ پاکستان کے بارڈرز پر بلا اشتعال بھارتی فائرنگ اور اُس کے نتیجے میں معصوم پاکستانی شہریوں کی شہادت کا ذمہ دار صرف بھارت ہے۔

پاکستان میں گزشتہ پندرہ دنوں میںجہاں جہاں بھی دہشتگردی کے واقعات ہوئے ہیں ان تمام واقعات میں بھارت اور افغانستان کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں اور کچھ ثبوت حکومت پاکستان نے افغانستان کی حکومت کو دیئے بھی ہیں،پاکستان میں پچھلے پندرہ دنوں کے دوران دس سے زائد دہشتگردی کے واقعات ہوئے ہیںجن کی تفصیل کچھ یوں ہے ”ان دس دنوں میں دہشتگردوں کی طرف سے پہلا حملہ دس فروری کو مہمندایجنسی تحصیل بائی زائی میں مو جود پاکستانی چیک پوسٹ پر کیا گیا جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہو ا،دوسرا حملہ گیارہ فروری کو سماء ٹی وی کی DSNG وین پر ہوا جس میں چینل کا اسسٹنٹ کیمرا مین شہید ہو گیا، تیسرہ حملہ تیرہ فروری کولاہور میں پنجاب اسمبلی کے پاس احتجاج کے دوران ہوا جس میںچودہ افراد شہید اور پچاسی زخمی ہو گئے ،چوتھا حملہ تیرہ فروری کوکوئٹہ میں سریاب روڑ پر کیا گیا جس میں دو پولیس اہلکار شہید ہو گئے ، پانچواں حملہ پندرہ فروری کو مہمند ایجنسی میں ہوا جس میں آٹھ افراد شہید ہوئے، چھٹا حملہ پندرہ فروری کو پشاور کے علاقے حیات آبادمیں ہوا جس میں ججز کی گاڑی کو نشانا بنایا گیا اس حملے میں دو افراد شہید ہوئے۔

Terrorism

Terrorism

ساتوں حملہ سولہ فروری کو بلوچستان کے علاقے آوران میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چیک پوسٹ پر کیا گیا جس میں ایک آفسر سمیت تین جوان شہید ہوئے ،آٹھواں حملہ سولہ فروری کوسہیون شریف سندھ میں حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہواجس میں نوے افراد شہید تین سو پچاس افراد زخمی ہوئے، نواں حملہ سولہ فروری کو ڈی آئی خان پولیس وین پر کیا گیا جس میں پانچ پولس اہلکار شہید اور تین زخمی ہوئے دسواںحملہ اکیس فروری کو چارسدہ سیشن کورٹ میں ہوا اس حملے میں پانچ افراد شہید پندرہ زخمی ہوئے اور تینوں حملہ آور مارے گئے ،یہ تھے ملک میں ہونے والے حالیہ دہشتگردی کے واقعات اور اُن واقعات کی تفصیل ۔ آج کل جہاں ملک کو بیشتر چلنجز کا سامنا ہے وہاں پنجاب حکومت نے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کروانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے ،یہا ں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کے اس فیصلے سے دہشتگردی سے متاثر پاکستانیوں کا اعتماد اور طرز زندگی بحال ہو پائے گا ؟ میرے نزدیک اس کا جواب ہاں میں ہے کیونکہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں منعقد کروانے سے دہشت گرد عناصر کو یہ ٹھوس پیغام جائے گا کہ پاکستانی عوام دھماکوں اور بزدلانہ حملوں سے خوفزدہ نہیں ہوں گے اور زندگی کے معمولات جاری رکھ کر دہشت گردی اور خوں ریزی کے چلن کا مؤثر جواب دیں گے تاہم پنجاب حکومت نے اس بارے میں فیصلہ کرنے میں غیر ضروری تاخیر کرکے غیر یقینی کی کیفیت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن بالاآخر پنجاب گورنمنٹ نے فائنل منعقد کروانے کا فیصلہ کرکے نہ صرف یہ کہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کے حوالے سے اہم اقدام کیا ہے بلکہ اس فیصلہ سے عوام کا حوصلہ اور ہمت بھی بڑھائی ہے۔

اس بات میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ فروری کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے درجن بھر سے زائد حملوں کی وجہ عوام میں مایوسی ، خوف اور بے یقینی کی کیفیت تو پیدا ہوئی ہے پرپاک فوج اور حکومت نے فوری اقدامات کرکے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن عام لوگوں کے لئے یہ بات سخت تشویش کا سبب بنی رہی ہے کہ ملک میں اڑھائی برس سے جاری آپریشن ضرب عضب کے باوجود دہشت گرد عناصر اس قدر منظم اور حوصلہ مند کیسے ہو سکتے ہیں کہ وہ یکے بعد دیگرے مہلک اور جاں لیوا حملے کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس خوف کو دور کرنے کے لئے حکومت نے فوری طور پر دہشت گردوں کے خلاف ملک بھر میں کومبنگ آپریشن شروع کرنے کے ساتھ ساتھ رینجرز کو خصوصی اختیارات بھی دے دیئے ہیں، لیکن اس سے قبل بھی حکومت اور فوج باقاعدگی سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے اور انہیں بے اثر بنانے کا اعلان کرتی رہی ہیں۔ اس لئے حالیہ حملوں نے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں کمزوری اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے نقائص کو ظاہر کیا ہے حکومت اور سیکورٹی اداروں نے صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لئے ملک میں افغان باشندوں اور پشتون آبادی کو خاص طور سے نشانہ بنانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ رویہ حکومت کی بد حواسی اور ناقص حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

کیونکہ کسی ایک گروہ کے خلاف کارروائی کرنے یا صرف سیکورٹی آپریشنز کے ذریعے کسی معاشرے کو محفوظ بنانا ممکن نہیں ہو گا اگر ہمیں واقعی دہشتگردی کے خلاف جنگ جتنی ہے تو حکومت کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے ٹھوس سیاسی اور سماجی اقدامات کرنے ہوں گے اور ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ دہشتگردوں کو مالی وسائل کون فراہم کر رہا ہے گزشتہ کچھ عرصہ سے بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے لیکن اس طرح دہشت گردی کے مالی معاونین کی مکمل تصویر سامنے نہیں آتی اور حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ غیر ملکی ایجنسیوں پر الزام لگا کر حکومت اپنی ذمہ داری سے بچنے کا راستہ تو تلاش کرلیتی ہے لیکن اس سنگین مسئلہ کو ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات نہیں کر پاتی۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب دہشت گردوں کے مالی وسائل کا واضح نقشہ بنایا جائے گا اور پھر ان ذرائع کو نشانہ بنا کر دہشت گردوں کو ملنے والی امداد سے محروم کیا جائے۔ جب تک اس حوالے سے واضح اور ٹھوس اقدامات دیکھنے میں نہیں آئیں گے، نہ ذہنی تربیت کرنے والی درسگاہیں ختم ہوں گی اور نہ ہی انہیں عملی تربیت دے کر معصوم لوگوں کی جان لینے والے خود کش حملہ آور بنانے کا سلسلہ بند ہو گا۔

Nawaz Bashir

Nawaz Bashir

تحریر : محمد نواز بشیر
nawaz.fm51@yahoo.com