ایک بڑی بڑی مونچھوں ولا شخص تیز رفتار سائیکل چلائے جارہا تھا کہ ایک عورت سے ٹکر ہوگئی ۔۔۔عورت نے کہا اتنی بڑی بڑی مونچھیں رکھ کر بھی سائیکل دھیان سے نہیں چلا سکتے ۔۔۔ بی بی!اس نے جل کر کہا یہ مونچھیں ہیں کوئی بریک نہیں۔۔۔ اس لطیفے کا حالات سے کوئی تال میل ہو نہ ہو لیکن مونچھوں کے باعث چند فی صد لوگوں کو امید سی ہوگئی ہے یعنی امید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی پاکستان میں جب بھی جمہوریت آتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی کچھ مایوس سیاستدان مارشل لاء کی پیش گوئیاں شروع کر دیتے ہیں کئی اچھے بھلے لوگوںکو سوتے جاگتے بوٹوںکی دھمک سنائی دیتی ہے کسی کوفوجی بوٹوںکی چاپ۔۔ وہ ہڑبڑا کراٹھتے ہیں، آنکھیں ملتے ہیںلیکن منظرنامہ جوںکا توںہوتاہے،کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہوتا آج بھی ایسے لوگوںکی کمی نہیں جو روزانہ حکومت کو رخصت، میاں نواز شریف کو گھر بھیج کر سوتے ہیں لیکن شرمندہ ہونے کی جائے صبح سے شام تک پھر حکومت جانے کی پیش گوئیاں کرتے تھکتے نہیں ہیں۔ ملک میں جمہوریت اورمارشل لاء کے آتے جاتے ادوار بارے۔۔
لیکن ایک حیرت انگیز انکشاف ہواہے پاکستان میں اب تلک مونچھوںوالے جرنیلوں نے مارشل لاء لگایا کلین شیو جمہوریت کے حامی نکلے۔ برصغیرمیں تو مونچھ مردانگی کی علامت سمجھی جاتی ہے،علاقائی تہذیب و تمدن اور معاشرہ میں مونچھوں والا بارعب شخصیت سمجھا جاتاہے آپ نے سناہوگا مغربی پاکستان کے ایک سابق گورنرنواب آف باغ کی مونچھوںمیں ایک خاص قسم کا سحر تھا ان کی بارعب شخصیت سے بیشتر ملنے والے مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔
ایک پنجابی فلم کا یہ گانا ایک دور میں بہت مشہور ہوا مونچھاں نیویاں کرکے ٹرنا گل نئیں مرداں والی جناب ِ عالی بہرحال بات ہورہی تھی۔۔۔ مونچھوںوالے جرنیلوںکی جنہوںنے جمہوریت کی بساط الٹ کررکھ دی اور دس بارہ سال کسی کو چوں چراں تک نہ کرنے دی۔آج کل عسکری حلقوںمیں مذاق کے پیرائے میں ایک سنجیدہ اطلاع برقی پیغام کے ذریعے گردش کررہی ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی مارشل لاء لگائے گئے سب کے سب آرمی چیفس مونچھوں والے تھے۔
مثلاً فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان،جنرل(ر) ضیاء الحق،اور جنرل(ر) پرویز مشرف۔۔۔جبکہ جتنے آرمی چیف کلین شیو تھے سب نے جمہوریت کو سپورٹ کیا جن میں جنرل(ر) یحی ٰ خان،جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ،جنرل(ر)آصف نواز جنجوعہ، جنرل(ر)جہانگیر کرامت اورجنرل(ر)اشفاق پرویز کیانی شامل ہیں جبکہ ایک دلچسپ پہلویہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی بھی مونچھیں ہیں ۔ یہ بھی شنیدہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان مختلف معاملات پر ایسے ایشو سامنے آچکے ہیں، کچھ کہی ان کہی کہانیاں بھی ہیںجس سے تنائو کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے” سیاسی سیانوں” کا کہنا ہے۔
Pakistan
لیکن اپنے سخت فیصلوں میں مونچھوں کا تو کوئی رول نہیں مگرسابقہ روایات کو نظرانداز کرنا بھی خاصا مشکل ہے یہ باتیں یقینا ایسے لوگ تواتر سے کرتے ہیں جن کی جمہوریت کے دوران دال کم ہی گلتی ہے ویسے بھی پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں کسی بھی وقت ،کچھ بھی ہو سکتاہے ان حالات میں”اب تلک مونچھوںوالے جرنیلوں نے مارشل لاء لگایا کلین شیو جمہوریت کے حامی نکلے والی بات ”نے کئی وزیروں، مشیروں کی نیند حرام کرکے رکھ دی ہوگی ماضی کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک بات نتیجے کے طور پر سامنے آتی ہے۔
اس وقت پاکستان کو جتنے بھی مسائل کا سامناہے ،جتنے بھی چیلنجز درپیش ہیں سب کے سب فوجی ڈکٹیٹروں کی بے رحم پالیسیوںکا منطقی انجام ہے لیکن ان کو مطلق احساس تک نہیں کہ ان کی نادانیوںنے ملک کو کس آگ میں جھونک دیا۔ جنرل راحیل شریف نے تو کئی بار جمہوریت کے حق میں بیانات دئیے ہیں جو یقینا موجودہ حکومت کیلئے حوصلہ افزا بات ہے جمہوری حکومت سے ان کے تعلقات خاصے خوشگوار نظرآرہے ہیں ان کی فیملی کے دو شہیدوںکو مادر ِ وطن کی حفاظت کے اعتراف میں پاکستان کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ملنا پوری قوم کیلئے باعث ِ فخر ہے۔
وہ یقینا ملک وقوم کیلئے بہتر سوچتے ہوں گے۔ اس وقت پاکستان کے سیاسی ،اقتصادی حالات، جغرافیائی صورت ِ حال، بھارت میں انتہا ء پسند سیاستدانوں کا بڑھتاہو ا اثر و رسوخ، بھارت، اسرائیل، امریکہ گٹھ جوڑ اور عالمی بے چینی کے تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوگا اب پاکستان کسی بھی صورت میں دوبارہ آمریت کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے آرمی چیف مونچھوں والے یاکلین شیو غالب خیال یہ ہے کہ جمہوریت اپنی تمام تر خوبیوں،خامیوں اور خرابیوں کے باوجود یونہی چلتی رہے گی مارشل لاء نہیں آئے گا اس کی خواہش رکھنے والے آئے روز دھواں دھار بیانات دے کر اپنے دل کا غبار نکالتے رہیں گے ان کی حسرت دل ہی دل میں رہنے کی سوفی صد امید ہے۔
کیونکہ اب اقتدارکی تمام مقتدرقوتیںاس بات پرمتفق نظر آتی ہیں کہ جمہوریت چلنی چاہیے جمہوریت کا تسلسل ہی ہمارے موجودہ مسائل کا حل ہے بری سے بری جمہوریت بھی مارشل لاء سے ہزار گنا بہتر ہوتی ہے ۔اس مقولے پریقین کرنے میںہی عافیت ہے جمہوریت برقراررہی تو سیاستدانوںکا احتساب ایک مستقل عمل اور فطری اندازمیںجاری رہے گا اوریہ اس وقت پاکستان کیلئے انتہائی ناگزیرہے ۔ہم اس کوشش میں کامیاب ہوئے تو افواہیں، اندیشے، سازشیں سب دم توڑ جائیں کی ۔پاکستان جمہوریت کی بدولت معرض ِ وجود میں آیا اور جمہوریت کے ذریعے ہی ترقی کرسکتاہے اس ضمن میں کوئی دو آراء نہیں ہو سکتیں اب حالات اس ڈگر، اس نہج، اس دوراہے پر آتے جارہے ہیں جس نے سیاست کرنی ہے۔
اسے جمہوریت پر ایمان لاناہوگا، لیکن عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری دلیلیں دے دے کر کہہ رہے ہیں موجودہ استحصالی نظام جمہوریت ہی نہیں ہے سانحہ ماڈل ٹائون میں14افرادکی لاشیں گرادی گئیں اڑھائی ماہ کی طویل جدوجہد کے بعد پرچہ درج ہوا لیکن کارروئی کے لئے کس میں جرأت ہے وہ و زیر ِ اعطم، و زیر ِ اعلیٰ یا وزیروں کے خلاف کوئی ایکشن لے سکے کوئی اقدام کرے۔تحریک ِ انصاف کے رہنمائوںکا کہناہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی ہے اس لئے میاں نواز شریف مستعفی ہو جائیں یہ مطالبہ منوانے کیلئے ایک ماہ سے ہزاروں افراد ڈی چوک میں دھرنا دئیے بیٹھے ہیں اب تو لوگ برملا کہنے لگے ہیں تعلیم یافتہ نوجوانوںکو ملازمت نہ ملے، لوگوںکو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ جائے۔۔
وسائل فقط چند ہاتھوں میں مقید ہوکر رہ جائیں۔۔۔جہاں غربت بدنصیبی بن جائے وہاں جمہوریت ہو یا آمریت کیا فرق پڑتاہے قوم نے تو تہیہ کر رکھا تھا کہ کوئی شارٹ کٹ،کسی چور دروازے یا کسی بھی اندازکی غیر جمہوری کوشش سے اقتدار میں آنے والوں قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے خلاف مزاحمت کی جائے گی تو پھر آرمی چیف مونچھوںوالاہویا کلین شیو کیافرق پڑتا ہے؟ لیکن کوئی حکمران عوام کے حقوق کی بات کرنا بھی پسندنہیں کرتاایسی جمہوریت کو کیا کرے کوئی؟اب تلک تو موجودہ آرمی چیف نے موجودہ جمہوریت کا مکمل ساتھ دیا ہے لیکن سیاستدان جمہور اورجمہوریت پر کوئی رحم نہیں کھا رہے شیخ رشید مسلسل کہہ رہے ہیں عید سے قبل قربانی ضرور ہوگی ۔سناہے تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے شاید وہ وقت قریب آن پہنچا ہے۔