ملک میں ہر طرف ایک افراتفری کا عالم ہے بلوچستان میں زلزلہ نے تباہی مچادی، پشاور میں دہشت گردوں نے خون کی ندیاں بہادی، کراچی میں ایک عرصہ سے جاری دہشت گردی کا جن قابو سے باہر ہے ،پنجاب میں خود کشیاں عام چکی ہیں پورا ملک تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے عوام غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے جن پشاورمیں مسیحی برادری خون میںلت پت تھی تو وزیر اعظم سرکاری جہاز میں جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے جا رہے تھے۔
انہیں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنا سفر کچھ گھنٹے روک لیت اور پشاور جا کر انکے غم میں شریک ہوتے وہاںپر موجود عمران خان نے بھی لاشوں پر سیاسی دکانداری سجا لی انہیں تو چاہیے تھا کہ وہ کہتے کہ صوبے کی ذمہ داری وزیر اعلی کے پاس ہے وہ انتظامات کو بہتر سمجھتے ہیں اور میں تو صرف آپ لوگوں کے غم میں شریک ہونے آیا ہوں وہ انکے ساتھ بیٹھتے تاکہ انہیں حوصلہ ہوتا دوسری طرف بلوچستان میں زلزلے نے تباہی مچادی اور وزیر اعظم ملک میں موجود نہیں۔
انکی جگہ پنجاب کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف کو جانا چاہیے تھا بلوچی بھائیوں کے غم میں شریک ہو کرانہیں احساس دلالتے کہ آپ اکیلیے نہیں ہو مگر نام خادم اعلی رکھنے سے عادتیں تو نہیں بدل سکتی یہ آج یا اس حکومت کا واقعہ نہیں ہے بلکہ ہماری پوری تاریخ ایسے ہی واقعات سے بھری پڑی ہے ہمارے جتنے بھی سیاستدان خواہ وہ موجدہ ہوں یا سابقہ تمام حکمرانوں نے پاکستان میں لوٹ مار ،کرپشن اور لاشوں پر سیاست کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔
ملک کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو جائے تو فوری طور پر ہمارے ان سیاسی لٹیروں کے بیانات آنا شروع ہوجاتے ہیں کہ ان ملک دشمن دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا، مصیبت کی اس گھڑی میں قوم کو تنہا نہیں چھوڑیں گے مگر ہوتا اسکے الٹ ہے حکومت جس کی بھی ہو وہ ہمیشہ غریب عوام سے ہی آہنی ہاتھوں سے نمٹتی ہے اور مصیبت کی ہر گھڑی میں عوام ہمیشہ تنہا ہی رہتی ہے جبکہ ہمارے حکمران بیرون ملک بیٹھے ہماری بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
Quaid E Azam
بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لیکر اب تک قائد اعظم کے بعد پاکستان میں مخلص قیادت کا فقدان ہی رہا اور آج تک کوئی محب وطن سیاستدان سامنے نہیں آیا جس نے ملک قوم کی خاطر کچھ کیا ہویہاں تک کہ ہم پر نااہل اور کرپٹ حکمران بار بار مسلط ہوتے رہے آپ جنرل ایوب خان کو ہی دیکھ لیں جسے پاکستان بننے سے قبل میجر سے اگلے رینک میں ترقی نہ دینے کی سفارش کی گئی تھی۔
مگر بدقسمتی سے وہی پاکستان کا حکمران بن بیٹھا ایوب خان سے پہلے اور بعد میں آنے والوںنے پاکستان کو مال غنیمت سمجھ کر دل کھول کر لوٹا اوران مفاد پرست اورنا اہل سیاستدانوں نے اس قوم کو بد امنی،کرپشن،لوٹ مار، مہنگائی، بے روز گاری، دہشت گردی اور تذلیل کے سوا کچھ نہیں دیا اور آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان میں فاقہ کشی عام ہو چکی ہے بیمار ہسپتالوں میں ذلیل وخوار ہورہے ہیں اور ہر سرکاری ملازم خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا وہ پورے پاکستان کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے ٹھیکیدار بھی وہ جو اپنی کمینگی کی تمام حدیں پار کرکے بغیرتی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکا ہو۔
پاکستان میں اگر اعلی عدلیہ بہتر کام نہ کررہی ہوتی تو ان سب نے ملکر پاکستان کو نانا جی کی حلوائی کی دکان سمجھ کر کب کی بندر بانٹ کر لینی تھی مگر کچھ جگہیں اسی بھی ہیں جہاں آکر عدلیہ بھی خاموش ہو جاتی ہے میں اپنے پڑھنے والوں کوبار بار استعفی دینے والے گورنر سندھ کے متعلق بتاتاچلوں کہ ڈاکٹر عشرت العباد کو 2002 میں آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل احسان الحق کی سفارش پر سندھ کا گورنر بنایا گیا تھا۔
عشرت العباد کا گورنر بننے کے لیے لندن سے اسلام آباد پہنچنے پر آئی ایس آئی کے افسران نے ہی استقبال کر کے حلف اٹھانے کے لیے پہلے سے تیار شدہ شیروانی پیش کی تھی ڈاکٹر عشرت العباد جو کہ سندھ میں 1990 میں بننے والی صوبائی حکومت میں وزیر بلدیات تھے۔1992 کا آپریشن شروع ہو نے پر قطر فرار ہو گئے تھے ان کے خلاف قتل سمیت دیگر سنگین الزامات کے متعدد مقدمات اس وقت بھی چل رہے تھے جب انہوں نے گورنر سندھ کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا