تحریر : شیخ خالد زاہد تمام حسیات کا تعلق انسان کی روح سے ہے۔۔۔جب روح جسم کا ساتھ چھوڑ دے ۔۔۔تو جسم کو لاش کہا جاتا ہے۔۔۔ دنیا کے ہر دین و مذہب میں لاش کو ٹھکانے لگانے کا الگ الگ طریقہ کار رائج ہے۔۔۔لاشوں کو مسخ کردو۔۔۔انکو کاٹ کے پھینک دو۔۔۔جلا دو ۔۔۔بے حرمتی کرو۔۔۔چیل کوئوں کو کھلا دو۔۔۔انکی بلا سے ۔۔۔لاشوں کے ساتھ جو دل چاہے سلوک کرو۔۔۔لاش تو لاش ہوتی ہے ۔۔۔اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔دور ِ حاضر کی ایک جدید ایجاد مشینی انسان(روبوٹ) ہے جس میں برقی توانائی سے حرکت پیدا کی جاتی ہے۔۔۔روبوٹ آپکے بتدریج کاموں میں بھرپور ساتھ دیتا ہے بلکہ انجام دیتا ہے۔۔۔مگر یہ مشینی انسان محبت اور نفرت سے آزاد ہوتا ہے ۔۔۔یہ کسی کے ملنے کی خوشی اور بچھڑنے والے کے غم سے آزاد ہے۔۔۔اس سے یہ ثابت ہوا کے انسان کے زندہ ہونے کی دلیل بغیر روح کے ناممکن ہے۔۔۔روح ہے تو محبت بھی کرے گی اور نفرت کا اظہار بھی برملا کرے گی ۔۔۔ملنے کی خوشی اور بچھڑنے والے کا ماتم بھی کرے گی۔۔۔
جسم کو لاش کے مرتبے پر اس وقت فائز کیا جاتا ہے جب اسکا عملِ تنفس بند ہوجائے۔۔۔ جب وہ بے حس اور بے جان ہو جائے۔۔۔کسی عمل سے کو ئی ردِ عمل نہ آئے۔۔۔دیگر عزیز و اقارب کو مطلع کیا جاتا ہے ۔۔۔تہجیز و تدفین کا انتظام بڑے منظم طریقے سے سر انجام دیا جاتا ہے۔۔۔پھر ایک وقت آتا ہے کہ مرنے والے کی لاش کو اسکی آخری آرام گاہ تک لے جایاجاتاہے۔۔۔اور پھر لحد کے سپر د کرکے دیگر امور کی تیاری شروع کی جاتی ہے۔۔۔
مذکورہ بالا معاملات طبعی موت کے حوالے سے لکھے گئے۔۔۔اب اگر کوئی جیتے جی بے حس و بے حرکت ہوجائے۔۔۔کسی عمل پر کوئی ردِ ردِ عمل ظاہر نہ کرے۔۔۔اور مزے سے سانس لیتا رہے۔۔۔کہیں کوئی مردہ دیکھا تو منہ دوسری طرف کر کے آگے بڑھ جائے۔۔۔کہیں کسی کو مار کھاتا دیکھے تو راستہ بدل کر چلا جائے۔۔۔کوئی آپکے سامنے آپ کی جیب سے پیسے نکال لے آپ اسے مسکرا کے اپنی دوسری جیب کا احوال بھی بتا دیں۔۔۔کسی کی موت پر انا للہ و انالیہ راجعون پڑھ کر سمجھ لینا کے تمام فرائض ادا ہوگئے۔۔۔زیادتی ہوتے ہوئے دیکھنا ۔۔۔زیادتی کرنے کے مترادف ہے۔۔۔اپنے محلوں میں بیریر یا ڈنڈے نصب کرنے سے کیا آ پ محفوظ ہوگئے ۔۔۔کیا آپ کا دفترمحلہ میں ہی ہے۔۔۔کیا آپ کے بچے کا اسکول پڑوس میں ہی ہے۔۔۔کیا ڈاکٹر آپ کے سامنے والے مکان میں بیٹھتا ہے۔۔۔کیا دھوبی کے لئے ، پرچون، گوشت ، سبزی وغیرہ کے لئے کہیں نہیں جانا۔۔۔جانا ہے سب کو کہیں نہ کہیں جانا ہے۔۔۔بیریر اور یہ ڈنڈے آپ کی کچھ حفاظت نہیں کر سکتے۔۔۔
Iran Revolution
ہم لوگ انقلاب کی باتیں کرتے ہیں ۔۔۔کوئی کہتا ہے ابھی انقلاب کا وقت نہیں آیا۔۔۔کوئی کہتا ہے انقلاب آنے کیلئے یہ ہونا باقی ہے ۔۔۔کوئی کہتا ہے یہ ہونا باقی ہے ۔۔۔کوئی کہتا ہے ایران میں انقلاب آیا ، کوئی فرانس کے انقلاب کی باتیں کرتا ہے،کسی نے کہا انقلاب عرب ریاستوں میں پہنچا گیا تو اب پاکستان کی باری ہے۔۔۔میں آپ لوگوں (اپنے قارئین )کے توسط سے ان تمام افراد سے صرف اتنا جاننا چاہونگا کے کیا انقلاب باتوں سے آتاہے۔۔۔کیا انقلاب ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر آہستہ آہستہ میز بجانے سے آتا ہے۔۔۔کیا انقلاب بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومنے سے آتا ہے ۔۔۔کیا انقلاب معمالات کو دبانے سے آتا ہے۔۔۔کیا انقلاب کمیشن کھانے سے آتا ہے۔۔۔کیا انقلاب اپنے اثاثے دشمن کے ہاتھ فروخت کرنے سے آتا ہے۔۔۔کیا انقلاب اپنے ملک کے ہیروز کو غدار ٹہرانے سے آتا ہے ۔۔۔
میںانتہائی دکھی اور پر سوز دل کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ۔۔۔لاشیں انقلاب نہیں لاسکتیں۔۔۔ہماری روحیں ہمارے ہڈیوں کے پنجر سے آزادی پاچکی ہیں ۔۔۔شائد انہیں ان ہڈیوں کے پنجر سے کراہت آتی ہوگی ۔۔۔آج ہم لوگوں میں وہ تمام کمزوریاں جو معاشرے اور اخلاقیات کے تنزلی کا ماضی میں سبب بنی ہیں ہمارے اندر جڑیں بنا چکی ہیں۔۔۔
کسی چیز کو جڑ سے نکالنا کتنا مشکل کام ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔۔۔تو ہمیں اپنے آپ کو لحد کے حوالے کردینا چاہئے ۔۔۔خود اپنے لئے اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھود لینی چاہئے۔۔۔ہم نے قدرت کی عطا کردہ عقل کو بیچ دیا ہے ۔۔۔ہم نے اپنی اقدار دفن کردیں ہیں۔۔۔ہم ان بے روح جسموں کو لئے سڑکوں پر بھلے بیٹھے رہیں۔۔۔کوئی فرق نہیں پڑنے والا ۔۔۔کیونکہ ۔۔۔لاشیں انقلاب نہیں لاسکتیں۔۔۔