برطانیہ (اصل میڈیا ڈیسک) برطانیہ میں ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی داعشی جنگجوئوں کی متنازع تصاویر نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
داعشی جنگجوئوں کی سربریدہ لاشوں کے ساتھ لی گئی سیلفی تصاویر کے بعد دہشت گردوں پر جنگی جرائم کی پہلے سے عاید کی گئی طویل فہرست میں ایک نئے الزام کا اضافہ ہے۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا یہ تصاویر داعش کے گرفتار دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی عدالتی کارروائی میں ایک ثبوت کے طور پر پیش کیا جائے گا یا نہیں۔
برطانوی اخبار”گارڈین” کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام سے واپس آنے داعشی دہشت گردوں می مقتولین کے ساتھ لی گئی تصاویر اور سربریدہ لاشوں کے ساتھ سیلفیوں کو ان کے جنگی جرائم، اجتماعی قتل عام اور دہشت گرد تنظیم سے تعلق جیسے الزامات میں ایک نیا اضافہ ہے۔ برطانوی پراسیکیوٹر ان تصاویر کو داعش کے گرفتار دہشت گردوں کے خلاف ٹرائل میں ثبوت کے طورپر پیش کرے گا۔
اخباری رپورٹ کے مطابق داعش کے جنگجوئوں کا سرکٹی لاشوں کے ساتھ سیلفیاں پراسیکیوٹر کے نزدیک میتوں کی بے حرمتی اور غیرانسانی طرز عمل ہے۔
اگرچہ شام اور دوسرے ملکوں سے برطانیہ واپسی پر داعش کے 400 جنگجوئوں کو گرفتار کیا گیا مگر کئی قسم کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ان میں سے صرف چالیس کا ٹرائل شروع کیا جاسکا ہے۔
عراقی پراسیکیوٹر جنرل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ داعشی دہشت گردوں کی لاشوں کے ساتھ سیلفی ان کے خلاف جاری قانونی کارروائی میں ایک نیا ثبوت بن سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ داعشی جان کے نام سے شہرت پانے والے برطانوی دہشت گرد عبدالمجید عبدالباری کو حراست میں لیا گیا تھا۔ داعشی جلاد کے لقب سے مشہور عبدالباری کو ایک شخص کی سربریدہ لاش کے ساتھ دیکھا گیا۔
برطانوی پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا ہے کہ صرف تصاویر کی بنیاد پر کسی شخص کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔
یورپی یونین کے استغاثہ مندوبین کا کہنا ہے کہ یورپ واپس آنے والے دہشت گردوں کی سرقلم کی گئی لاشوں اور کٹے سروں کے ساتھ سیلیفیاں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں ایک نیااضافہ ہوسکتا ہے۔
عراق میں یزیدی قبیلے کی خاتوم سماجی کارکن نوبل ایوارڈ یافتہ نادیہ مراد نے کہا ہےکہ مظلوم افراد کا انصاف کے حصول میں ناکام ہونا بھی اذیت کی ایک بدترین شکل ہے۔
نادیہ مراد عراق کے یزیدی قبیلے کی ایک نوجوان خاتون کارکن ہیں جوداعش کی قید میں رہ چکی ہیں۔ تین ماہ تک داعش کی دہشت گردی کا سامنا کرنے والی نادیہ مراد نے عراق سے بھاگ کرجرمنی میں پناہ حاصل کی تھی۔ بعد ازاں اسے عالمی ایوارڈ جاری کیا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ نوبل انعام کی رقم سے شمالی عراق میں جنسی تشدد کا شکار خواتین کی بحالی کے لیے ایک اسپتال قائم کریں گی۔