ملک کی آزادی کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے، انگریزوں کی غلام سے جسمانی طور پر بہرحال ہمیں نجات ملی لیکن ذہن و دماغ آج بھی انہیں کے غلام ہیں۔ پینسٹھ سال کسی بھی ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے بہت ہوتے ہیں لیکن یہاں اس طویل مدت میںبے شمار فسادات ہوئے ، بے پناہ مسلکی، سیاسی، فرقہ وارانہ، اور نہ جانے کتنے قسم کے فسادات نے جنم لیا جس کی وجہ سے ہم اور ہمارا ملک کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں کر سکا۔ ہمارے ملک کی آبادی کا زیادہ نہیں تو نصف آبادی لازمی سطح غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے۔
سینکڑوں غریب بھوک مری اور فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ اس ملک کے بے شمار مسائل میں غربت سب سے اہم مسئلہ رہا ہے جو ہمارے سیاستدانوں کو صرف انتخابات کے وقت ہی یاد آتا ہے اس کے خاتمے کے جتنے وعدے اب تک کئے گئے ہیں اس پر اگر ذرا سا بھی عمل کیا جاتا تو غربت کے مسائل پر بہت قابو پایا جا سکتا تھا، لیکن نعرے کچھ اور کہتے ہیں اور عمل کچھ اور! اسی لئے ابھی تک یہ مسئلہ نہ صرف جوں کا توں ہے بلکہ اس میں کئی اضافہ بھی ہوچکا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ملک دنیا کی نوزائیدہ جمہوری ملک ہے،( کیونکہ ہمارے یہاں زیادہ ادوار آمریت کا رہا ہے) لیکن کرپشن، گھپلے، رشوت ستانی، دہشت گردی، نشانہ وار قتل ہماری جمہوریت کے لئے بدنما داغ بنے ہوئے ہیں۔ جب تک یہ اور ان جیسے مسائل کے تدارک کے لئے تدابیر نہیں کی جائیں گی تب تک دنیا پر ” میرا پاکستان ایک جمہوری ملک” جیسا سنہرا سلوگن اچھا نہیں لگے گا۔
پینسٹھ سال پہلے خون صد ہزار انجم سے طلوع ہونے والی سحر کے بعد انگریزوں کی غلامی سے نجات ملی تھی مگرایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ آج ہم سب اپنے ملک کے عوام سے امید کرتے ہیں کہ اب وہ وطنِ عزیز کی خاطر اور دیگر مسائل سے چھٹکارے کے لئے متحدہ کوششیں کریں گے تاکہ نصف صدی بعد ہی سہی ہم ایک بہتر معاشرہ بنانے میں کامیاب ہو سکیں ۔ اچھی زندگی گزارنے کا جو خواب آپ سب نے دیکھ رکھا ہے اس کی تعبیر ہمیں حاصل ہو سکے۔
Pakistan Elections
ہمارے ملک میں ایک بار پھر عام انتخابات کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ یہ وقت بتائے گا کہ ان انتخابات میں موجودہ حکومت دوبارہ آئے گی یا اپوزیشن جماعت یا پھر کوئی نئی سیاسی جماعت ! دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہماری عوام با شعور اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو چکی ہے یا ابھی تک نابلد ہیں۔ باشعور عوام اپنے لئے با شعور حکومت بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس لئے قبل از وقت اس پر تبصرہ ممکن نہیں ہے۔ کیا تبدیلی آئے گی یا پھر وہی پرانے چہرے عوام پر مسلط کئے جائیں گے یہ بھی قبل از وقت ہے لہٰذا اس پر بحث کچھ وقت کے لئے مؤخر کرتے ہیں۔
انتخابات کے سال کا آغاز ہو چکا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ دن بھی گزر ہی جائیں گے ۔ عوام نے پھر سے نئی امیدیں اور نئی تمنائیں قائم کر لی ہیں لیکن کیا نئے الیکشن کے بعد عوام کی امیدیں بَر آئیں گی۔ کیا کوئی بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہوگی۔ چیلنجوں سے بھری اس نوزائدہ جمہوری ملک کو اللہ سلامت رکھے ۔ پھر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک دن اس ملک کے عوام کی تقدیر میں ضرور تبدیلی آئے گی ۔اور عوام اس محاورہ کے مصداق ” مدتوں بعد سمندر کو پسینہ آیا” ضرور اپنی جائز خوشیاں پائیں گے۔
یہ بات آئینہ کی طرح شفاف ہے کہ تمام تر مسائل میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کر کے ہی کامیابی حاصل کیا جا سکتا ہے لہٰذا سب سے پہلے عوام کا فریضہ شروع ہوتا ہے اور وہ بھی مقدس ووٹ کے ذریعے چنانچہ دورِ جاہلیت کو چھوڑیئے اور ترقی یافتہ دور کی طرح اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کیجئے تاکہ معاشرے میں آپ کی عزت بڑھے۔ کچھ ارباب یہ بھی بیان بازی کر رہے ہیں (اور یہ بیان بازی صحیح بھی ہے) کہ وہ نوبت پھر آجانے کا اندیشہ ہے کہ ووٹ دینے میں ہماری عوام کوئی کوتاہی نہ کر جائے اور پھر سے ایسی حکومت کا وجود جنم لے جو عوام کی داد رسی کے بجائے عوام پر شب خون مارے۔
انتخابی موسم کی دھمک جاری ہے اور یہی ایک موسم ہے جب تمام سیاسی پارٹیوں کو عوام ثمر اور تناور درخت نظر آتے ہیں۔ انہیں احساس ہونے لگتا ہے کہ عوام کے ووٹ کی اہمیت کیا ہے۔ اور سچائی بھی یہی ہے کہ ووٹ ایک مقدس امانت ہے، اتفاقِ رائے سے اپنے لئے حکمران چننا آپ کا حق ہے اسے استعمال کیجئے ۔ موروثی سیاست کا قلعہ قمع کیجئے تاکہ آپ ہی میں سے حکمران بھی چُنے جائیں ۔ آپ نے دیکھا کہ پچھلا بلدیاتی نظام کتنا اچھا تھا کہ جس کے ذریعے آپ کے کام آپ کے علاقے میں ہی ہو جایا کرتے تھے اور وہ نمائندے بھی آپ ہی کے علاقے کے رہنے والے ہوتے تھے انہیں بتانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی کہ آپ کے مسائل کیا ہیں۔
Political parties
بس تمام مسائل وقتاً فوقتاً خود ہی حل ہو جایا کرتے تھے۔ چونکہ یہ نظام عوامی نظام تھا اس لئے پچھلے پانچ سالوں میں اس نظام کے تحت الیکشن ہی نہیں کروائے گئے جس کی وجہ سے آج ہر گلی محلہ میں بلدیاتی مسائل حد درجہ موجود ہیں۔سیاسی جماعتوں نے اس نظام کو آمریت کا نظام کہہ کر عوام کو دھوکہ دیایوں بلدیاتی نظام رائج نہیں ہو سکا ۔سب کو یہ دیکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ کوئی نظام چاہے آمریت کے دور میں ہی رائج کیوں نہ ہوا ہو اگر عوام کی بھلائی کے لئے ہے تو اچھا ہے اور اس نظام کو چلانے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیئے۔
اس لئے آپ اپنے اپنے رہنمائوں کو مسیحا ضرور سمجھئے مگر اپنے دل اور دماغ کی بات ضرور مانیئے کیونکہ جو دل کہتا ہے وہی سچ ہوتا ہے اور ہم سب کو یقینِ کامل ہے کہ آپ کا دل کہہ رہا ہے کہ اب تبدیلی نا گزیر ہے۔ بلدیات سے کیا ہے باہر انتخاب کے پھاٹک نے جھٹک دیا پھر سیاسی نعروں کو سیاست کے ناٹک نے
علامہ محمد اقبال نے آج سے کئی دہائی قبل کہا تھا کہ ” جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا” گویا انہوں نے ایک پیشنگوئی دے کر خبر دار کر دیا تھا کہ تم سب اپنے آپ کو سدھار لوورنہ اب علامہ کے اس شعر کا مفہوم مکمل طور پر واضح نظر آ رہا ہے ۔ آج ہمیں حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ کوئی سنی ہے تو کوئی شیعہ، کوئی دیو بندی ہے تو کوئی اہلحدیث، کوئی پنجابی ہے تو کوئی پٹھان، کوئی مہاجر ہے تو کوئی بلوچ، اور سندھی، غرض کہ ہر طرح سے ہمیں بانٹ کر مغربی دنیا کے انگریز اپنے آپ کو خوش قسمت گردان رہے ہیں۔ اور مختلف زاویوں سے لوگوں کو اسلام سے متنفر کر نے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ اگر ہمارے اندر اب بھی اتحاد کی کمی دیکھی گئی تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے ۔
آپ کی انہی حد بندیوں اور تفرقوں کی وجہ سے وہ ہم پر غالب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری ہے یوں ہمارے یہاں دن بدن بھکاریوں، فاقہ کشوں، لٹیروں اور غنڈوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر ہر فرد بھوک کی وجہ سے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ اس لئے خدارا اپنے حال پر رحم کیجئے اور اتحاد و یگانگت کی مثال قائم کیجئے تاکہ یہ مغربی لوگ اپنے مذموم کوششوں میں کامیاب نہ ہو اور انہیں منہ کی کھانی پڑھے۔ انہیں یہ بتا دیجئے کہ اب پاکستان بد رہا ہے اس لئے کہ آپ کے اتحاد سے دوبارہ یہ خزاں آلود چمن بہار میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی