تحریر : انجینئر افتخار چودھری تم ادھر ہی سو جائو مچھر بھی نہیں کاٹے گا اور نیند بھی بوت اچھا آئے گا۔ویسے گبھرانا نہیں اے پچھلی بار انہوں نے ادھر سے ہمارا ایک مہمان مارا تھا لیکن ہم نے بدلے میں اس کا دو مہمان مار دیا سو جائو۔خان صاحب نے لاہور سے آئے ہوئے مہمان دوست کو تسلی دی۔اب آگے آپ کو علم ہی ہو گا کہ مہمان نے اپنی چارپائی کہاں ڈالی ہو گی۔قارئین یہ لطیفہ مجھے بول کو بند کرنے پر یاد آیا۔بول نے گزشتہ کئی ماہ سے بہت سوں کی بولتی بند کرا دی تھی اور یہ چینیل بڑی خوبصورتی سے پاکستان اور پاکستانیت کی لڑائی لڑ رہا تھا اس نے اس میڈیا گروپ کو ٹانگوں سے جا لیا تھا جو مامے خان بن کر پاکستانی قوم کو گمراہ کر رہا تھا۔اور جس کا خیال تھا کہ آسمان صحافت کا سورج ہماری اجازت کے بغیر طلوع اور غروب نہیں ہوتا۔میرے معزز قارئین آپکو علم ہے کہ ایک میڈیا گروپ جو کھاتا تو پاکستان کا ہے اور جگالی جا کر انڈیا میں کرتا ہے، ویسے ایک دوست نے کہا آپ کو کس نے کہا کہ وہ کھاتا پاکستان کا ہے وہ کھاتا انڈیا کا ہے البتہ غراتاپاکستان پر ہے۔
بول کی اس لڑائی میں جب ایزیکٹ کے اوپر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا تو میں نے اس وقت بھی بول کے لئے لکھا اس سمے اسے لانچ نہیں ہونے دیا جا رہا تھا ایک لمبی لڑائی لڑنے کے بعد بول آیا اس نے دیکھا اور وہ چھا گیا لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اس نے ان اینکرز کو بھی لے لیا جو ایک خاص میڈیا گروپ کی بات کیا کرتے تھے۔کل آزادی ء صحافت کا دن تھا صحافی خوشیاں منا رہے تھے مجھے وہ ظالم یاد آ گئے جو خوشی کے موقع پر دوسروں کو دکھ دیتے ہیں کسی کو یاد ہے صدام کو بھی عید ہی کے روز لٹکایا گیا تھا صرف اس لئے کہ دنیا کو پیغام جائے کہ ہم آپ کی خوشیوں کو بھی پھانسی دے رہے ہیں کل ہی میں نے ان لوگوں کو یاد کیا جنہوں نے سعودی عرب میں پاکستانیوں کو جیلوں میں بند کروایا جن کا قصور صرف یہ تھا کہ ڈکٹیٹر جھوٹ بولتا ہے۔
ان میں ایک اخبار کے نمائیندے کو جدہ سے گرفتار کروا کے کنگلا کر کے پاکستان بھجوایا تھا۔صحافیوں کی زندگیاں جتنی پاکستان میں خطرے میں ہیں اتنی شائد صومالیہ اور افغانستان میں بھی نہیں ہیں۔ہاں جتنی خطرے میں اتنی ہی مزے میں بھی ہیں کہ صحافیوں نے پیمائش اوزان بیضان میں کمال کیا اور بڑے بڑے عہدے سمیٹے۔جی سن لیجئے بول پر ڈاکہ مارنے والے بھی ایک صحافی ہی ہیں اور اپنے قلم کو بازار سیاست میں نیلام کرنے والوں نے کیا کیا پایا اس کا ذکر کیا تو دوست ناراض ہو جائیں گے۔سوال یہ پید اہوتا ہے کہ امریکہ میں کئے گئے جرم کی سزا ادھر بولتی ہے تو ادھر اس پر ایکشن لے لیا جاتا ہے۔مجھے بتائیے کہ کیا وہ سزا حتمی ہے ؟کیا وہاں کی عدالتیں مر گئی ہیں وہ ان کی اپیل نہیں سنیں گی اگر کوئی ایسی بات ہے تو ایک خبر کے اوپر اتنا بڑا ایکشن کیوں لے لیا جاتا ہے۔در اصل یہ کسی دوسرے کے مہمان کو مارنے والی بات ہے۔
سولین اور فوج کے درمیان کشمکش کا یہ شاخسانہ ہے وہ چینیل جو پاک فوج کی عزت کرنے میں پیش پیش تھا اسے حکومتی ادارے نے بند کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ بول غلطی پر تھا۔سوچئے اور جانئے جس ملک دشمن میڈیا کی میں بات کر رہا ہوں اس نے کتنی بار پاکستانی فوج اس کے اہم ادارے پر حملہ کیا دو دن تک آئی ایس آئی کے سربراہ کو رسوا کیا۔اجمل قصاب کیس میں اس کا رویہ کیا تھا مگر اس ادارے کو کسی نے کچھ نہیں کہا۔ہاں اگر ایک مرد حر تھا تو وہ عمران خان تھا جس نے اس ادارے کے سیٹھ کو ناکوں چنے چبوا دئے اور حالت یہاں تک پہنچی کے ادارے کے لوگ صحافی منتیں سماجتیں کرنے بنی گالہ پہنچ گئے کہ حضور ہمارا کیا قصور ہے؟ہمیں کس بات کی سزا دی جا رہی ہے؟پاکستان اس وقت عجیب و غریب کشمکش کے دور سے گزر رہا ہے جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں۔فوج کو جمہوریت کے نام پر دبانے کی کوشش جاری ہے اس سلسلے میں ننگ وطن لوگ بھارتی امداد بھی لے رہے ہیں ساجن جندال کی مری آمد کے بعد یہ بات تو واضح ہے کہ قوتیں یہ بتانا چاہتی ہیں کہ ہمارے ساتھ بھارت ہے ۔اور جس آلو گوشت کی بات اور رب کو پوجنے کا قصہ ماضی میں بیان کیا گیا اس کی روشنی میں پاکستانیوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ فوج کدھر کھڑی ہے اور سولین حکومت کہاں۔بول نے تھوڑے ہی عرصے میں کامیابی کے ریکارڈ توڑے ہیں یہ وہ واحد چینیل تھا جس نے اشتہارات نہیں لئے اور لوگوں کو فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے کا موقع میسر کیا۔
میں نے دو سال قبل بول کی بندش پر احتجاج کیا تھا اور اسے بی سی سی آئی کی بندش قرار دیا تھا میں آج بھی اپنے موئقف پر قائم ہوں کہ پاکستان کی آواز کو بند کیا جا رہا ہے۔تم ادھر ہی سو جائو مچھر بھی نہیں کاٹے گا اور نیند بھی بوت اچھا آئے گا۔ویسے گبھرانا نہیں اے پچھلی بار انہوں نے ادھر سے ہمارا ایک مہمان مارا تھا لیکن ہم نے بدلے میں اس کا دو مہمان مار دیا سو جائو۔خان صاحب نے لاہور سے آئے ہوئے مہمان دوست کو تسلی دی۔اب آگے آپ کو علم ہی ہو گا کہ مہمان نے اپنی چارپائی کہاں ڈالی ہو گی۔ آزادی ء صحافت کے اس دن بول کو پھانسی دے کر صدام یاد آگئے اور پھانسی دینے والے بھی۔