افغانستان (جیوڈیسک) کابل میں اہم سرکاری عمارتوں کے قریب ایک زور دار دھماکے کے بعد دو طرفہ لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں کم از کم ایک سو افراد زخمی ہوئے جبکہ ہلاکتوں کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
افغان وزارت صحت کے ایک ترجمان وحید اللہ کے مطابق اب تک کم از کم ایک سو افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ حکام نے ہلاکتوں کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی حتمی اعداد و شمار سامنے نہیں آئے۔
دریں اثناء افغان طالبان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ان کے اس حملے کا مقصد وزارت دفاع، لاجسٹکس اور انجينيئرنگ کے شعبے کو نشانہ بنانا تھا۔ ایک پولیس افسر محمد کریم نے بتایا ہے کہ بارود سے بھری ایک گاڑ ی کے ذریعے وزارت دفاع کے بالکل سامنے دھماکا کیا گیا۔ اس کے بعد عسکریت پسند قریب ہی واقع ایک مارکیٹ میں داخل ہو گئے اور نے ايک اونچے مقام سے وزارت دفاع کی عمارت پر فائرنگ شروع کر دی۔
عینی شاہدین کے مطابق دھماکا اس قدر شدید تھا کہ قریبی عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے تک ٹوٹ گئے۔ کابل پولیس نے حملے کی تصدیق تو کر دی ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ طالبان کی طرف سے اُس علاقے میں حملہ کیا گیا، جہاں کی سکیورٹی انتہائی سخت ہے۔ اسی علاقے میں افغانستان کی خفیہ ایجنسی کا ہیڈ کوارٹر بھی واقع ہے۔
کابل پولیس چیف کے ترجمان فردوس فرماز کا کہنا تھا کہ دو طرفہ فائرنگ کی وجہ سے دھماکے کے مقام تک رسائی مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک مزید معلومات دستياب نہیں۔
یہ حملہ اُس وقت کیا گیا، جب دفاتر جانے والوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔ حملے کے فوراﹰ بعد پولیس اور فوج کے خصوصی دستوں نے علاقے کو گھیرے میں لیتے ہوئے جوابی کارروائی شروع کر دی۔
یہ دھماکا ایک ایسے موقع پر ہوا ہے، جب دوحہ ميں افغان طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات کا ساتواں دور جاری ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد افغانستان میں جاری اٹھارہ سالہ جنگ کا خاتمہ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مذاکرات کے دوران طالبان کے ایسے بڑے حملوں کا مقصد مذاکرات میں اپنی پوزیشن بہتر بنانا ہے۔ طالبان یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ سخت سکیورٹی کے حصار میں واقع مقامات کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔