ہاتھی کے بچے کو پائوں میں زنجیر ڈال کے پالا جاتا ہے وہ زنجیر توڑنے کی کئی دن کوشش کر تا رہتا ہے لیکن ہمت ہار کے چھوڑ دیتا ہے جب وہ بڑا اور طاقت ور ہو جاتا ہے تو وہی زنجیر ہوتی ہے جو ہلکی سی کوشش سے بھی ٹوٹ سکتی ہے مگر ہاتھی کے دماغ میں وہی ہو تا ہے کہ زنجیر نہیں ٹوٹے گی اور وہ زنجیر میں جکڑا ساری زندگی غلام رہتا ہے ہماری قوم کی طرح ،ہم نے بھی ارادہ کیا ہوا ہے کہ ساری زندگی وڈیروں ، جاگیرداروں ،سرمایہ داروں ، زر داروں ، زور داروں اور”شریفین والبریفین ” کی غلامی ہی کرنی ہے پہلے یہی وڈیرے برطانوی سامراج کی غلا می کا دم بھرتے رہے اور آج بھی یہی رسہ گیر ، کف گیر،صاحبِ جاگیر برطانوی سامراج کے دائرے سے نکل کر امریکی سامراج کی غلامی میں چلے گئے اور غریب عوام اِنہی وڈیروںاور موسمی بٹیروں کی غلا می اختیار کیے ہوئے ہیں،غلامی ہماری فطرت میں رچ بس گئی ہے
ہمیں آزادی میں اُبکائیاں ، اُلٹیاں آنے لگتی ہیں اور ہم موسمی بخار کا شکار ہو جاتے ہیں دراصل ہمیں آزادی کی فضا راس نہیں آتی ہے لہذا ہم پھر کسی نہ کسی وڈیرے ، جاگیر دار ، سر مایہ دار ، زردار کی غلامی میں چلے جاتے ہیں اور اپنے آپ کو سکوں و راحت پہنچاتے ہیں ہمیں اپنی طاقت کا احساس ہی نہیں ہے اگر احساس ہوتا تو آج ہم بھی تیونس ، مصر اور لبنان کی طرح موروثی سیاست اور حکمرانی کو اپنی جاگیر سمجھنے والوں کی عقل ٹھکانے لگا چکے ہوتے ہمارے پائوں میں حکمرانوں نے بیرونی قرضہ کی ایسی زنجیر ڈالی ہے کہ اب پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو پہلی قومی سانس 40ہزار روپے میں پڑتی ہے
یعنی وہ صرف بیرونی دنیا کا 40ہزار روپے کا مقروض پیدا ہو تا ہے اور جس بد قسمت خاندان میں پیدا ہو تا ہے وہ پہلے ہی قرضائی یعنی ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہوتا ہے اب ہم اِن چیزوں کے عادی ہو گئے ہیں ورنہ ہمارے پائوں میں پڑی غلامی کی زنجیر اِ تنی طاقتور نہیں ہے کہ نہ ٹوٹ سکے ؟بلکہ وہ تو ایک ہی جھٹکے سے حصے بخروں میں ٹوٹ کر بکھر سکتی ہے مگر ہمیں اس کا احساس نہیں ہے اور ہم بھی اُس ہاتھی کے بچے کی طرح غلامی کی زنجیر کے عادی ہو گئے ہیں غریب عوام لاشعوری کے اُس گہرے سمندر میں غوطہ زن ہے جہاں سے اس کا ساحل مُراد تک پہنچنا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے
”بی بی ” اور ” با بو ” کی باری باری کے چکر میں غریب عوام ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے اب پھر اُسی پالیسی کے تحت کل کے شدید حریف آج ذاتی مفادات کے لیے خاص حلیف بنے ہوئے ہیں کل جن کو ہمارے ”شوباز شریف ” بھاٹی چوک کے جلسے میں اُلٹا لٹکانے کی باتیں گلا پھاڑ پھاڑ کے کیا کرتے تھے اور اُن کو ”علی بابا ، چالیس چور ”ڈیکلیئر کر رہے تھے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اب اِن کو گلے لگانے کو بے تاب ہیں اس سے زیادہ ذاتی مفادات کی سیاست اور کیا ہو سکتی ہے ؟
غریب عوام کے مفادات ، مہنگائی کم کرنے ، لوڈشیڈنگ کے خاتمے ،چائلڈ لیبر کے خاتمے ، ملک میں بڑھتے ہوئے روز بروز فحاشی و عریانی کے سیلاب کی روک تھام ، تعلیمی اداروں میں بے حیائی کے کلچر کو روکنے ، ٹارگٹ کلنگ کو روکنے، جہالت کے خاتمے ، شرح خواندگی میں اضافہ اور اخلاقی آلودگی کے خاتمے کے لیے آج تک اِن ”راہنمایانِ قوم ” نے غریب عوام کے لیے اتحاد نہیں کیا جب بھی کریں گے یا تو اپنے قرضے معاف کرانے ، اپنے کیس ختم کرانے یا پھر اقتدار انجوائے کر نے کے لیے ”اتحاد ” کا ناٹک رچائیں گے اور اُن کے میڈیا سیلز سے کچھ اسی طرح کے بیان داغے جائیں گے کہ ”ہم نے غریب عوام کو ریلیف دینے کے لیے اتحاد کیا ہے ” ”غریبوں کو اُن کی دہلیز پر انصاف مہیا کرنے کے لیے اپنی تمام تر توا نائیاں صرف کر دیں گے ”
11مئی کے انتخابات کے نتیجہ میں موجودہ حکمران اقتدار میں آئے اور انہوں نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی اور حسبِ روایت وطن عزیز کے ساتھ کمٹمنٹ اور غریب عوام کے ساتھ ”وفاداری ” کا حلف اُٹھا یاعام طور پر دوسرے ممالک میں قائم حکومتیں 100دن کے اندر اندر اپنی سمت کا تعین کر لیتی ہیں لیکن ہمارا دستور اور طریقہ کاردوسرے ممالک سے ذرا مختلف ہے آج ایک سال گزرنے کے بعد بھی حالات جوں کے توں ہیں بلکہ مذید بگڑتے چلے جارہے ہیں
جس ملک میں دودھ فی کلو 80 روپے ، آٹا فی کلو 70 روپے ، چینی فی کلو 70 روپے ، گھی فی کلو 200روپے ،دال چنا فی کلو 80 روپے ،جلانے والی عام لکڑی فی من 520 روپے،پٹرول فی لٹر 110 روپے، ٹرانسپورٹ کرایہ لاہور تا لیہ 800 روپے، اینٹ فی ہزار 7000 روپے، سیمنٹ فی بوری 500 روپے ، سریا فی کلو گرام 100 روپے ، ریت فی ٹرالی 4000 روپے ،ڈی اے پی کھاد فی تھیلا 5000 روپے،ایک عام ٹیوب ویل کے بجلی کا بل 59000 روپے ،ڈالر 100 روپے سے تجاوز کر جائے ،زرِ مبادلہ کے ذخائر 20ارب ڈالرسے بڑھ گئے ہوں جس میں 10ارب ڈالر سے زائدآئی ایم ایف کا قرض بھی شامل ہے
IMF
صنعتیں یا تو بند ہورہی ہیں یا پھر بنگلہ دیش اور سری لنکا منتقل ہو رہی ہیں ، پاکستان آئی ایم ایف کا ممبر 1950ء میں بنا لیکن پہلا قرضہ 1958ء میں لیا گیا ، پاک سرزمین ، کشور حسین ، مرکز ِ یقین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت اور ترقی کے دعوے کرنے والے تمام وزرائے اعظم نے بھی اپنے اپنے دورِ حکومت میں آئی ایم ایف سے قرض لیا ،1958ء سے لے کراکتوبر 2008ء تک 50سالوں میں آئی ایم ایف سے مجموعی طور پر جتنا قرضہ لیا گیا اس کے مقابلے میں موجودہ حکمرانوں نے گزشتہ 1سال میں دگنے سے بھی زیادہ قرض کی منظوری لے لی ہے
راقم اپنے شہر لیہ کی مثال دے گا کہ 20سال پہلے جو ضلع لیہ کے ”سیاسی مامے ”اور ”تایا جی ” تھے آج تادم ِ تحریر بھی وہی چاچے ، مامے اور تائے آپ کو نظر آئیں گے وہی جکھڑ ، تھند ، سیہڑ ، سواگ ، بخاری ، میرانی ، مہر ، اچلانے اقتدار کے سنگھاسٹن پر براجمان ہیں اور غریب عوام نے اپنی غربت کا سفر جہاں سے شروع کیا تھا آج بھی وہی کھڑی ہے مجھے اکثر نوجوان نسل کی طرف سے پیغام ملتے رہتے ہیں کہ آپ ضلع لیہ کے نام نہاد ”غریب پرور ”عوامی نمائندگان کی ”کلاس ”لیا کریں کہ جنہوں نے سوائے دُکھوں اور تکلیفوں کے عوام کو کچھ بھی نہیں دیا اور عوام کی طرف سے بھی کبھی کوئی احتجاج ، گلہ ، شکوہ نہ تو سُننے کو ملا ہے
اور نہ ہی کبھی دیکھنے کو نصیب ہواہماری آنکھیں وہ مناظر دیکھنے کو ترس گئی ہیں کہ کب وطن عزیز کی عوام اپنے حقوق کے حصول اور اپنے پائوں میں پڑی غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے میدانِ عمل میں نکلے گی آخر وہ خوش نصیب لمحہ اور خوش بخت گھڑی کب آئے گی جب ذ ہنی اور فکری غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں گی؟ کیونکہ ڈاکٹر خیال امروہی نے درست کہا تھا کہ کون دیتا ہے کہاں مجبور کو حق غاصب حق چھیننا پڑتا ہے لُٹیروں سے جھپٹ کر