عہد حاضر کا قلم کار جب تاریخی واقعات کو قلمبند کر کے کتاب کی شکل دیتا ہے تو وہ ایک اہم دستاویز بن جاتی ہے جو کہ آنے والی نسلوں کو اپنے اسلاف کی روشن تاریخ سے روشناس کراتی ہے۔ بڑے عظیم ہیں وہ لوگ جو تاریخی واقعات کو رقم کرتے ہیں۔ صلیبی جنگیں ہو ں یا محمود غزنوی کے سومنات پر حملے، طارق بن زیاد کے ایمان افروز واقعات ہوں یا محمد بن قاسم جیسے نوعمرفاتح سندھ کے بہادری کے قصّے ،کتابوں کی بدولت ہی ہم تک پہنچ پائے۔ گذشتہ دنوں جب میں نے اپنے آبائی ضلع اٹک میں جانے کا قصد کیا تو اپنے دیرینہ دوستوں اقبال زرقاش اور شجاع اختر اعوان کے ہمراہ معرکہ بڈھ بیر کے ہیرو کیپٹن اِسفند یار بخاری شہید کی تربت پر حاضری کا شرف حاصل ہوا۔
بقول علامہ محمداقبال شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے! اور قوم سے علامہ کی مراد یقینی طور پر یہی ہوگی کہ ! خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی!
قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں مارے جانے والے شہید ہیں اور شہید زندہ ہیں!…اس اعتبار سے اللہ کی راہ کی پاسداری ہر مسلمان پر ضروری ہے۔اگر ہم کیپٹن اِسفند یار بخاری کی عسکری شخصیت کا مطالعہ کریں تو یہ ایک دیو مالائی کردار کی صورت میں ہماری سامنے آتی ہے۔
18″ستمبر 2015 جمعہ کے دن بڈھ بیر ایئرفورس کیمپ پشاور پر بزدل دہشت گردوں نے حملہ کیا اور مسجد میں 18نمازیوں کو شہید کر دیا۔ جب کیپٹن اسفند یار وہاں پہنچے تو 28لوگ شہید اور 29زخمی ہو چکے تھے۔ آرمی کمانڈر میجر حسیب زخمی ہو کر سی ایم ایچ جا چکے تھے۔ کیپٹن اسفند یار نے شدید فائرنگ میں خود جا کر ریکی کی اور صورت حال کا جائزہ لیا۔ کیو آر ایف کی کارروائی کو منظم کیا اور رضاکارانہ طور پر خود کو کمانڈ کے لئے پیش کر دیا۔ جبکہ یہ اْن کی ڈیوٹی نہ تھی۔ پھر 12پنجاب اور 15بلوچ کے جوانوں کی قیادت سنبھالی۔ ان کے ہمراہ آفیسرز اور جوانوں نے بار بار اْن کو عقب میںرہنے کی تلقین کی۔ مگر وہ اس شدید فائرنگ میں گاڑی سے کود گئے اور دہشت گردوں پر چڑھ دوڑے۔ اْن کی شجاعت اور دلیری دیکھ کر دہشت گردوں کے حوصلے پست ہو گئے۔
اس دن ان کی خودکش جیکٹیں بھی ناکارہ ہو گئیں اور اپنی جان بچاتے پھر رہے تھے۔ کبھی ایک بیرک میں اور کبھی دوسری بیرک میں۔اْس دن اٹک کے ایک شیر نے ان گیڈروں کو آگے لگا لیا تھا۔ اسفند یار نے بذات خود کئی دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔آپ کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترنے والے وہ دہشت گرد تھے جنہوں نے بے گناہ نمازیوں کوناحق شہید کیا تھا۔آپ نے بہترین قیادت کی اور کمانڈوز کے آنے سے قبل ہی آپریشن ختم کر کے جراّت و بہادری کی نئی داستان رقم کر ڈالی۔
روم کلیئرنس کے دوران آخری دہشت گرد کو موت کی راہ دکھائی مگر اس کی چلائی ہوئی گولی ان کے سینے پر بائیں جانب لگی اور وہ اللہ کی راہ میں بڑی بے جگری سے لڑتے ہوئے اپنے وطن عزیز پر قربان ہو گئے۔ ان کے اس کارنامے کی بدولت دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔آپ کی اس جراّت و مردانگی سے ایئرفورس کے سینکڑوں لوگوں کی جانیں بچ گئیں اور کپتان اسفند یار نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قوم کو اے پی ایس سے بھی کہیں بڑے سانحے سے بچا لیا۔ آپ کی بحیثیت جی تھری کپتان یہ ڈیوٹی تھی کہ آپ کمان کرتے ہوئے ہدایات جاری کرتے اور آپ کی زیر کمان سپاہی لڑتے مگر یہ ستائیس سالہ نوجوان آرمی آفیسراپنے سپاہیوں کو پس پشت ڈال کر ان دیکھے دہشت گردوں پر چڑھ دوڑا اور جْراّت و بہادری کی وہ تاریخ رقم کر دی جو صدیوں یادرکھی جائے گی۔بقول شاعر
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مالِ غنیمت ، نہ کشور کشائی
ہمارے عزیز دوست کالم نگار ڈاکڑ شجاع اخترنے شہید کیپٹن اسفند یار بخاری کے والد محترم ڈاکٹر سید فیاض بخاری کی طرف سے ہمیں شہید پر لکھی جانے والی کتاب پیش کی جو کہ کپٹن اسفند یار بخاری شہید کے کالج کے استاد پروفیسر محمد ظہیر قندیل نے رقم کی۔ بہترین سرورق اور اعلیٰ درجے کے معیاری کاغذ سے تیارکردہ تین سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے انتہا کی محنت، لگن اور کوشش سے شہید کی ستائیس سالہ زندگی کے واقعات کا احاطہ کیا ہے۔ اس کتاب کے متعدد ایڈیشن اشاعت پذیر ہو چکے ہیں اور کتب خانوں سے ایوانوں تک اس کتاب کی دھوم ہے اور اس کتاب کو پڑھ کر ہزاروں طالب علموں میں اپنے ملک کی خاطر مرمٹنے کا جذبہ بیدار ہوا ہے۔
پروفیسر محمدظہیر قندیل خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے جراّ ت و بہادری کی اس تاریخ کو مرتب کرکے آنے والی نسلوں کو ان تاریخی واقعات سے روشناس کرانے کا بیٹرا اْٹھایا ہے۔ اس کتاب”معرکہ ِبڈھ بیر کا ہیرو”کا مطالعہ نوجوان نسل کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ کتاب ایک دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔ ڈاکٹر فیاض بخاری اور اْن کی اہلیہ عظمیٰ بخاری صاحبہ کو میں سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنے جوان سال بیٹے کی شہادت پر اپنے سر فخر سے بلند کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دوسرے بچے بھی ملک و قوم کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے حاضر ہیں۔ میں سلام پیش کرتا ہوںسانحہء بڈھ بیرمیں شہید ہونے والے ایک ایک سپاہی کو جنہوں نے وطن کی حرمت کی خاطر اپنے سینے پیش کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور ہماری آنے والی نسلوں کودہشت گردی کے عفریت سے بچانے کے لیے آہنی دیوار کا کردار ادا کیا۔ بقولِ شاعر
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جان سے گزر گئے راہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گا ر بنا دیا شاعر مشرق نے کہا تھا محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے ستاروںپہ جو ڈالتے ہیں کمند