تحریر : چوہدری غلام غوث گذشتہ دنوں ملک کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں کتاب میلوں کا انعقاد کیا گیا جس کے بارے میں مختلف اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ نوجوان نسل نے کتابوں کی خریداری میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور صرف شغل میلے کی طرز پر بُک سٹالوں کے قریب کھڑے ہو کر تصاویر اور سیلفیاں بنواتے رہے ہیں۔یہ مایوس کُن خبر میرے لیے کسی سانحے سے کم نہیں تھی بلکہ برق رفتاری سے ترقی کرتے ہوئے ذرائع مواصلات اور ای سسٹم کی موجودگی میں کتاب بینی جیسے ایک مفید مشغلے کے متروک ہونے پر میں پہلے ہی نوحہ کناں تھا کہ اس خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ہم نے بچپن میں ہی اپنے اُستادوں سے سُنا تھا کہ دنیا بھر میں جو مسلمہ اصول رائج ہے اُس کے مطابق دنیا میں علم حاصل کرنے کے تین معتبر ذرائع ہیں جن میں کتاب بینی، صحبت کا اختیار کرنا اور سفر پر نکلنا شامل ہیں۔
میں تو اکثر دانشوروں اور اُستادوں کی مجلس میں اُن سے اس بنا پر اُلجھ جاتا تھا جب وہ اس بات کا برملا اظہار کرتے کہ کتاب کا زمانہ نہیں رہا کتاب بینی متروک ہوتی جا رہی ہے یہ جملہ میرے اوپر قہر بن کر ٹوٹتا اور میرا مؤقف ہوتا کہ آپ لوگوں نے یہ جملہ بول بول کر زبانِ زدِ عام کر دیا ہے اور آپ نے واقعی نوجوان نسل کو کتاب سے دُور کر دیا ہے اور اس کی جگہ پر اُن کے ہاتھوں میں انٹرنیٹ اور موبائل تھما دیا ہے میری رائے ہوتی کہ کتاب ہی انسان کی مخلص اور بہترین دوست ہے کتاب انسان کو لاشعوری سے شعور کی طرف لاتی ہے کتاب آپ کی فہم و فراست میں نکھار پیدا کرتی ہے کتاب آپ کو گویائی کا سلیقہ اور معاشرے میں اچھی زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتی ہے لہذا کتاب کا رشتہ ہر ذی شعور اور علم کے طالب انسان کے لیے لازم و ملزوم کا ہے ان میں دوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کتاب معاشرے میں موجود گھٹن کے خاتمے کا سبب بنتی ہے جیسا کہ ایک مستند مقولہ ہے ” وسیع المطالعہ شخص ہمیشہ وسیع القلب ہوتا ہے” مطالعہ ہر شخص کی تنگ نظری کو بالغ نظری میں بدل دیتا ہے۔ وسیع المطالعہ افراد معاشرے کے دوسرے لوگوں اور اپنے دوستوں کے نظریات، عقائد، خواہشات اور سوچ کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں اس بارے میں مشہور مغربی دانشور شیکسپیئر کی رائے ہے کہ اچھی کتاب کا مطالعہ انسان کے دل کو زندہ اور دماغ کو تازہ رکھتا ہے۔
ایک مرتبہ کسی اخبار نویس نے شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید سے پوچھا تھا کہ آپ بچوں کے لیے جو ماہنامہ ہمدرد نونہال نکالتے ہیں اس کا کیا مقصد ہے تو اُنہوں نے بہت خوبصورت جواب دیا تھا کہ اس میں بھی میرا مقصد حکمت سے خالی نہیں، میں قوم کے نونہالوں کو دلچسپ اور سبق آموز کہانیوں کے ذریعے سے مطالعہ کی عادت ڈالنا چاہتا ہوں میں اپنی قوم کی نرسری کو کُتب بینی کی طرف راغب ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ وہ مستقبل میں میرے مُلک کے مفید شہری بن کر اس کی خدمت کر سکیں۔کتاب کی حُرمت اور تقدس کا اندازہ اگر فطرت کی نظر سے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب قرآنِ مجید کو لوحِ محفوظ پر لکھ کر قیامت تک کے لیے محفوظ کر لیا ہے اور دُنیا میں اس کی حفاظت کا ذمہ اپنے سر لے لیا۔ آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسانیت کی راہبری اور بھلائی کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام مبعوث فرمائے مگر آج ہمیں صرف اُن انبیاء کرام کے ناموں کا پتہ ہے جن پر یا تو الہامی کتاب اور صحیفے نازل ہوئے یا جن انبیاء کا کسی کتاب میں نام کے ساتھ تذکرہ ہوا جبکہ حرف کی حُرمت کا تو کیا عالی شان مرتبہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لفظ ”کُن” کہہ کر پوری کائنات کو تخلیق کر دیا تھا۔
Society
قارئین! آج کے ترقی کرتے ہوئے معاشرے میں بھی کتاب کی افادیت سے انکار یکسر ناممکن ہے کیونکہ کتاب ہی نے انسان کو ارتقائی بلندیوں تک پہنچایا ہے زمانہ گواہ ہے کہ جس نے کتاب سے دوستی کر لی اُس نے ستاروں پر کمندیں ڈال دیں اور وہ ترقی کی معراج پر پہنچ گیا اور اس کے برعکس جس نے کتاب سے دوری اختیار کی وہ جہالت اور گمراہی کی گہرائیوں میں دھنس گیا۔ یاد رکھیں ہمیں پھر سے لوٹ کر کتاب دوستی کی طرف آنا ہو گا۔ مطالعہ خواہ کتابوں کا ہو یا اچھی تحریروں کا ایک صحت مند مشغلہ ہے جو قلب و ذہن کو روشن کرتا ہے ماہرین کے مطابق پڑھنے کی عادت صحت پر بہت اچھے مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ جدید تحقیق سے یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ مطالعہ طویل العمری کا موجب بنتا ہے، مطالعہ ذخیرہ الفاظ کو بڑھاتا ہے جس کا براہِ راست تعلق ذہانت سے ہوتا ہے۔بچوں کو اگر مطالعہ کی عادت ڈال دی جائے تو نہ صرف اس سے ان کی ذہانت اور آئی کیو لیول میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ بچوں کی شخصیت میں خود اعتمادی کا عنصر بھی نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے۔
اپنے علم میں اضافہ، تناؤ میں کمی اور انٹر نیٹ سے دوری جیسے فوائد آپ ایک اچھی کتاب کھول کر حاصل کر سکتے ہیں ایک تحقیق کے مطابق اچھی کتاب پڑھنے سے ذہن کو سکون ملتا ہے جس سے نیند بھی جلدی آ جاتی ہے اگر آپ ڈپریشن اور پریشانی سے دور رہنا چاہتے ہیں تو کتابوں سے دوستی کر لیجئے جب آپ کے من میں کتاب بینی کا شوق بیدار ہو گا آپ کتابیں پڑھنے لگیں گے تو آپ کے بند ذہن کے پردے تہہ در تہہ کھُلیں گے جس سے آپ پر اچھے اور بُرے کی تمیز آشکار ہو گی آپ کی زبان شکوے و شکایات سے پاک رہے گی آپ غیبت، بدگمانی سے بچ جائیں گے نفرتوں کی آگ سے محفوظ رہیں گے اور آپ کی شخصیت میں ادب و احترام کا وصف پیدا ہو گا۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اپنے عمل سے کتاب بینی کی طرف واپس لانا ہو گا۔ کتاب بینی کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔
لائبریریوں کو آباد کرنے کے لیے حکومت کو قابلِ عمل اور پُرکشش پالیسیاں بنانا ہوں گی یہ شعبہ حکومت کی خصوصی توجہ اور شفقت کا طالب ہے۔ آج سے قوم یہ تہیہ کر لے کہ ہمیں اس تاثر کا مکمل خاتمہ کرنا ہے کہ کتاب کا زمانہ نہیں رہا ۔میں آپ کو عملی طور پر ایک فارمولا بتانا چاہتا ہوں آپ اپنی آمدنی کا کچھ حصّہ کتابوں کی خریداری کے لیے وقف کر دیں کتابیں خریدیں کتابیں تحفہ میں دیں اس طرح سے کُتب بینی کو فروغ ملے گا کتاب دوستی کا ماحول پیدا ہو گا جس سے معاشرے میں مثبت تبدیلی آئے گی اور انشاء اللہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا۔