تحریر : شہزاد سلیم عباسی کتاب سے دل لگی، شغف اور محبت کی بدولت لاکھوں کروڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ منجھے لکھاریوں نے بڑے پائے کی ضخیم اور بھاری بھرکم کتابوں کی روشنی چارسو عالم بکھیری ہے۔ بڑے بڑے مفکروں، بادشاہوں، اماموں، فلاسفروں، تاریخ دانوں، ڈاکٹروں، ادیبوں، شاعروں، عارفوں، عالموں، مفتیوں، پیروں، فقیروں، صحافیوں، سیاستدانوں اور نجانے کس کس شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے کمال کتابیں زیب قرطاس کی ہیں۔ پہلے پہل تو کتابیں بکتی تھیں،دکھتی تھیں،تحائف میں لینا، دنیا لوگ پسند کرتے تھے، کتاب لکھنے اور شائع کرنے والوںکا ایک خاص مقام ہوتا تھا۔ لیکن ترقی و ترویج ، جدت و ندرت، بدلے رنگ وساز ، مادی نفسا نفسی ، زمانے کے اتار چڑھائو اوردل پر جمے خمار سے اب جہاں کتاب کی اشاعت میں خاطر خواہ کمی آئی ہے وہاں کتب بینی تو بس ایک دیوانے مجنوں کا خواب نظرآتا ہے۔
بدلتے رجحانات کی وجہ سے ہزارہا کتب خانوں اور بک شاپس کا بند ہوناکتاب دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔آج اکیسویں صدی میں ہم عمر کی تین دہائیوں سے پانچ دہائیوں تک کے لوگ کسی حد تک کتب بینی کا شوق باامر مجبوری رکھتے ہیں،جبکہ حقیقت احوال یہ ہے کہ اب زندگی کی پچاس یا اس سے زیادہ بہاریں دیکھنے والا ہی کتا ب کی طرف متوجہ نظر آتا ہے ، اسکی گفتگو اور طرز تکلم سے کتاب کے صفحات کی بینی بینی خوشبو مہکتی ہے اور کچھ احساس ہوتا ہے کہ کتابیں بولتی ہیں اور ابھی بھی زندہ ہیں۔ فی زمانہ ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا اور ٹی وی نے نئی نسل کی زندگی بگاڑ کر رکھ دی ہے ۔انٹرنیٹ ،ٹی وی پروگراموں ، تبصروں اور پل پل کی نئی نویلی خبروں نے کتاب بینی کی ضرورت و افادیت کو خاک میں ملا دیا ہے۔ نوجوان نسل آن لائن تیارشدہ مواد کے چکر میں ہزارہا غیر متعلقہ لنکس کے ذریعے فلمیں، ڈرامے، بے حیاء ویڈیوز، فضول مواد اور پھر سوشل میڈیا (فیس بک، وٹس ایب اور ٹویٹر) کے گرداب میں گن چکر ہو جاتا ہے۔
قارئین !مطالعہ خواہ اچھی کتابوں کا ہو ، تحریروں یا رسائل و مسائل کا ایک مفید مشغلہ ہے جو قلب و ذہن کو روشن کرتا ہے ۔ ماہرین اور اہل الرائے حضرات کے مطابق کتب بینی سے صحت پر اچھے اثرات مرتب کر کے زندگی کو خوب خوشحال بنا یا جاسکتا ہے ۔ بین الاقوامی تحقیق کے مطابق مندرجہ ذیل فوائد بھی سمیٹے جا سکتے ہیں ؛مطالعہ سے ذہنی تنائو اور پریشانی کو 68 فیصد تک کم کر کے موسیقی ، چہل قدمی ، یوگا ، سبزی اور فروٹ کے کھانے سے بھی زیادہ تقویت حاصل کی جاسکتی ہے۔شکاگو رش یونیورسٹی سنٹر کی تحقیق کے مطابق کتب بینی سے دماغی انحطاط یعنی کمزور یاداشت( Short or Long Term momory loss) پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے ۔کتب بینی سے نیند بہت زبردست آتی ہے اور کتابی شوق رکھنے والا آدمی مدلل ،موثر کن Justified اور جامع مانع بات کر کے اپنے سماجی رابطوں کو مزید پائیدار بناسکتا ہے۔چائلڈ ڈویلپمنٹ نامی جرنل کے مطابق عمر کے اوائل حصے میں جو بچے کتب بینی کا شوق رکھتے ہیں وہ بے ذوق بچوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین و فطین ہوتے ہیں ۔ مطالعہ کا روزانہ کی بنیادپردس منٹ کے لیے کوئی بھی وقت مقرر کریں۔اچھی کتابوں کی فہرست بنا کر پڑھیں اور اہم نوٹس بھی لکھیں،مطالعہ کے لیے پرسکون جگہ دیکھیں، بک شاپ جائیں، لائبریری جائیں۔
صحت افضاء مقام پر جا کر مطالعہ کریں، میسر وقت میں خوشی سے مطالعہ کریں،مطالعہ کی دلچسپی بڑھانے کے لیے اپنا پیج یا بلاگ بنا کر اسے ڈیلی اپڈیٹ بھی کریں اور اسے دوستوں سے ڈسکس کریں، کسی بڑے مقصد اور موضوع کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کو روشن ہوتا ہوا دیکھیں۔ادب ، مذہب، اسلام، سماجیات، معاشیات، فلکیات وغیرہ پر کروڑہا موضوعات ہیں ، انتخاب آپ کا ہے!!! کالم پوائنٹ ( منتخب کالموں کا مجموعہ ) کے مرتب حافظ محمد زائد پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کے ذمہ دار ہیں جن کی بے انتہا محنت اور کتاب سے والہانہ محبت وشفقت کی بدولت پاکستان کے طول وعرض میں پھیلے قلم کاروں کے خوبصورت کالموں کا مجموعہ” کالم پوائنٹ” میرے سامنے ہے ۔ جس پر میں شہزاد چوہدری ، فرخ شہباز وڑائچ ،حافظ زائد،منور پبلی کیشنز ، اور معزز کالم نگاروں کو کتاب کی دلکش طباعت، پزیرائی اور بہترین کاوش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔کتاب پر سیر حاصل تبصرہ تو ممکن نہیں لیکن کالم پوائنٹ میں کیا ہے ؟ اس کا ذکر کرنا ضرور ی سمجھتا ہوں۔
اس کتاب میں محمد صغیر قمر، ایم آر بھٹی، چوہدری غلام غوث،چوہدری دلاور حسین، حسنین رضوری، رفیق چوہدری ،سید احمد گیلانی، صائمہ ایوب قادری اور خود راقم سمیت چالیس قلم کاروں نے قرآن، عوام، حقوق العباد، انسانی حقوق، اردو ذریعہ تعلیم، طبقاتی نظام تعلیم اور نظام تعلیم،کشمیر، آزادی ، مسلم ممالک کا اتحادسمیت مختلف موضوعات زیر بحث لائے ہیں ۔ شقاوت، حقارت اور ہلاکت،ریاست، اسلام کی جنگ اور باپ ماں سے کم نہیںوغیرہ اس کتاب کی خوبصورت تحریریں ہیںلیکن میرے ناقص رائے میں کتاب کی اشاعت سے پہلے کتاب کو باریک بینی سے پڑھنا بہت ضروری ہے تاکہ اس میں املاء کی غلطیاں یا کچھ غیر متعلقہ مواد شامل نہ ہوسکے۔ ہمارے پیارے دوست ڈائریکٹر پاکستان ادب سمیع اللہ سمیع کا تحفہ A Song of a Blind Bride کتاب کی شکل میں امسال ملا ، تو کتابی تحفے کا تشکر بجا لانا ہم جیسے ناقدروں کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے کیوں کہ ہم ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جو کتاب سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں۔ کتاب کے مصنف بہائو الدین یونیورسٹی لیہ کے ظہور حسین ہیں جو خوبصورت خیال کے انسان ہیں ،انگلش ادب ، ڈرامہ اور ناول سے گہرا لگائو رکھتے ہیں ۔ ان کی تصنیف شدہ انگلش شاعری کی کتاب 88 صفحات اور پچاس خوبصورت نظموں، غزلوں اور نعت پر مشتمل ہیں جو کہ ان کی 20 سالہ علمی زندگی کی کا وشوں کا نچوڑ ہے ۔ انکی شاعری میںمحمد ۖمحمدۖمیں محمدۖ ، The Time Changes ، I am for Sale ، A song of a fatherless child ، A song of blind bride ، Tick Tick ، Life is like a race اور Soul’s journey شامل ہیں۔
کتاب دوستی صرف تعلیم یافتہ طبقے کا ہی نہیں بلکہ ہرطبقہ فکر اورہر مسلک و مذہب کو بیٹھ کر سوچنا ہو گا کہ کس طریقے سے کتب بینی کا شوق عام کیا جائے ؟حکومت کو محلوں ، یونین کونسلوں، تحصیلوں ، ضلعوں ، صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلقوں میں ایک ایک ماڈل لائبریری بنانی چاہیے اور ہر سال پورے ملک کے ہر کوچے میں کتابی میلوں کا انعقاد کرانا چاہیے جس سے اور کچھ نہیں تو کم از کم قرون اولی ، بزرگان دین اور اسلاف کی کتابوں سے محبت کو تو تازہ کیا جا سکے۔