مصطفی آباد/للیانی (نامہ نگار) حیہ عرفی جو حضرت سید نا علی علیہ السلام کے متوسلین میں تھے ، فرماتے ہیں کہ امیر المومنین امام المتقین سید نا علی علیہ السلام نے معاویہ سے جنگ کے دوران دریا کے کنارے پر پڑائو ڈالا اچانک وہاں ایک آدمی آیا اور کہا :السلام و علیک یا امیر المومنین !
سید ناعلی علیہ السلام نے فرمایا: وعلیکم السلام ! اس نے بتایا: میں سمعوم بن یوحنا ہوں اور اس کلیسا میں رہتا ہوں اس نے کلیسا کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا، پھر کہا ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام سے میراث در میراث چلی آ رہی ہے اگر آپ حکم دیں تو آ پ کو پڑھ کر سنائوں اور اگر آپ چاہیں تو حاضرخدمت کروں سید نا علی علیہ السلام نے فر مایا : پڑھو اس نے پڑھنا شروع کیا اس کتاب میں حضور نبی اکرمۖ کی نعت شریف تھی اور آپ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ تھا آخری مضمون یہ تھا ایک دن اِس دریا کے کنارے وہ شخص اترے گا جو اس زمانہ میں دین اور قرابت دونوں لحاذ سے رسول اللہ ۖ کے قریب ترین ہو گا وہ اہل مشرق کے ساتھ اہل مغرب سے مقاتلہ کرے گا۔
اس کے سامنے دنیا کی قدرو قیمت ریت سے بھی کم تر ہو گی، وہ شدتِ جنگ میں طوفانوں سے بھی زیادہ زور دار ہو گا اور اس کی نگاہوں میں موت اتنی عزیز ہو گی جتنا شربت ہوتا ہے، اللہ تبارک تعالی کی مدد اس کے شامل حال ہو گی اور اس کے ساتھ قتل ہونا شہادت ہو گا پھر وہ کہنے لگا جب وہ نبی ۖ مبعوث ہوئے تو میں ان پر ایمان لے آیا اور جبکہ آپ نے یہاں پڑائو ڈالا ہے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا ہوں، تاکہ زندہ و مردہ ہر حال میں آپ ہی کے پاس رہوں سید نا علی المرتضٰی علیہ السلام یہ سماعت فرما کر رو دئیے اور آپ علیہ السلام کے ساتھ حاضرین بھی رونے لگے پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا : سب تعریفیں اس ذاتِ اقدس کیلئے ہیں جس نے میرا تذکرہ نیک لوگوں کے صحیفہ میں فرمایا، پھر حیہ عرفی سے کہا : اے حیہ ! اس کی صبح شام نگہداشت کرنا۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام جب بھی کھانا تناول فرماتے اسے طلب کرتے ۔ وہ راہب اس وقت لیلة الہریرہ میں شہید ہوا، جب امیر المومنین ، امام المتقین سید نا علی حیدر کرار علیہ السلام معاویہ سے شدید جنگ کر رہے تھے سید نا علی علیہ السلام نے اس کی نماز جنازہ ادا فرمائی اور اس کی قبر میں اتر کر فرمایا: یہ شخص ہمارے اہل بیت میں سے ہے، (شواہد النبوة)
نوٹ: جنگ صفین سید نا علی علیہ السلام کا باغیوں کے خلاف معرکہ تھا۔ جس میں آپ کے مخالفین کو عبرت ناک شکست ہوئی اور پھر موت سے بچنے کیلئے انہوں نے قر آن مجید فرقان حمید کو نیزوں پر اٹھا کر اپنی جان بچائی،