تلخیاں، ساحر لدھیانوی کی کتاب ہے جو 1944 میں یعنی قیام پاکستان سے قبل شائع ہوئی۔ان کی اس کتاب میں غزلیں ہیں، ساحر لدھیانوی ان چند شعرا میں سے ایک ایسے منفرد اور ترقی پسند شاعر ہیں جو دنیائے فانی تک مشہور و معروف رہیں گے۔ساحر نے معاشرے کے بے آواز طبقے کے مسائل کو زبان دی ہے ۔ساحر لدھیانوی کی تمام تر شاعری کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان کی شاعری کو جتنی بار بھی پڑھیں، سنْیں، اتنی ہی مرتبہ مزید پڑھنے، سننے کو دل کرتا ہے۔ یہ خصوصیت ساحر کو باقی شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ساحر لدھیانوی کے بعد سینئر صحافی و کالم نگار علی احمد ڈھلوں نے بھی”تلخیاں” تحریر کر دی،ان کی کتاب ان کے کالموں کا مجموعہ ہے۔علی احمد ڈھلوں کا تعلق کھڈیاں ضلع قصور سے ہے۔ان کی کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کرنے کاموقع ملا جو ایوان اقبال لاہور میں ہوئی۔کھڈیاں سے مہر اقبال انجم سمیت دیگر صحافی دوستوں نے بڑی تعداد میں تقریب رونمائی میں شرکت کی کیونکہ یہ ان کے لئے ایک اعزاز کی بات تھی۔علی احمد ڈھلوںایک سچے،کھرے اور پیار کرنے والے انسان ہیں۔وہ ہمیشہ سچ لکھتے اور بولتے آئے ہیں۔اسی وجہ سے کھڈیاں کے احباب انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ایوان اقبال پہنچے تو ہال بھر چکا تھا،تقریب رونمائی کا وقت تین بجے کا تھا ،اور تین بجے ہی تمام کرسیاں بھر چکی تھی ،شرکاء میں سینئر صحافی و کالم نگار بھی تھے ،یہ علی احمد ڈھلوں سے محبت کا نتیجہ تھا کہ لاہور شہر کے صحافی بھی اس تقریب میں شریک ہوئے اور آخر تک شریک رہے۔تقریب کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر ا طلاعات و نشریات فواد چودھری تھے جنہوں نے آغاز میں کہا کہ علی احمد ڈھلوں نے آج ایوان اقبال کا ہال بھر دیا اتنا بڑا ہال آجکل پیپلز پارٹی نہیں بھر سکتی،جماعت اسلامی کا نام اس لئے نہیں لیا کیونکہ یہاں امیر العظیم بیٹھے ہیں۔فواد چودھری کا کہنا تھا کہ سیاست میں ذاتی تلخیاں کم ہوں گی لیکن احتساب کا سلسلہ نہیں رکے گا ، سابقہ ادوار میں قومی اداروں کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا گیا جس سے ادارے کھوکھلے ہوئے ، اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے ، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ملک منزل کی طرف بڑھ رہا ہے ، وزیراعظم اپنے آفس جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اڑھائی بلین ڈالر قرض ادا کرنا ہے۔
وزیراعظم نے فائر فائٹنگ کی ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات گئے ، ہم نے سب سے پہلے ادائیگیوں کا توازن ٹھیک کیا ، ہماری درآمدات کم اور برآمدات بڑھ رہی ہیں ،وورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بیرون ممالک سے پیسے واپس ملک بھجوانے میں اضافہ ہو رہا ہے ، انشاء اللہ 2019ء میں ہم پاکستان کو معاشی منزل کی طرف لے جانے کی کوشش کریں گے ، آئندہ چھ ماہ میں معیشت کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جائیں گے ،ہم چاہتے ہیں کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے صنعتیں لگائی جائیں ، ایکسپورٹ سیکٹر کو بجلی اور گیس میں مراعات دیں ، نواز شریف یا آصف علی زرداری پر ایک بھی مقدمہ ہم نے نہیں بنایا ہے ، ان کے خلاف تفتیش 2015ء میں شروع ہوئی تھی ،ہمارا کسی سے ذاتی جھگڑا نہیں ہے ، مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کمپنیاں بنائیں اور ملک کا پیسہ باہر منتقل کیا ،پیپلز پارٹی نے منی لانڈنگ کے ذریعے بیرون ممالک جائیدادیں بنائیں ،دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتی رہیں ، جب ہم اداروں کو اپنا بزنس پارٹنر بنائیں گے اور ان سے ذاتی کام لیں گے تو ادارے کمزور ہوں گے ،جس بھی ادارے کو ہاتھ لگائیں پتہ چلتا ہے وہ اندر سے کھوکھلا ہے ،جب ادارے کمزور ہوتے ہیں تو ملک بھی نیچے جاتا ہے جتنا پی ٹی آئی بتا رہی تھی معاملات اس سے زیادہ گھمبیر ہیں۔
جب کارکن صحافیوں کی بات ہوتی ہے تو دل کارکن صحافیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے ، صحافی کارکنوں کے لئے اصلاحات لائیں گے ،ویج بورڈ کے حوالے سے جلد ہی پیش رفت ہو گی جس سے صحافی کارکنوں کو براہ راست فائدہ ہوگا ،حکومت نے نئی ایڈورٹائزنگ پالیسی کا اجراء کیا ہے جس سے ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے رول کو کم کر کے اداروں کے ساتھ معاملات طے کریں گے ،کارکن صحافیوں کی تنخواہیں ،حکومتی ادائیگیوں کے ساتھ منسلک ہوں گی ، سیاست میں تلخی کم کر رہے ہیں جبکہ احتساب پر سمجھوتہ کرنا ووٹرز کے ساتھ غداری ہوگی ، تلخیاں کم ہونے سے احتساب کی گرمی کم نہیں ہونی چاہیے ، شہباز شریف تو صرف کاغذوں میں قید ہیں جبکہ وہ سیکورٹی گارڈ ، فری بجلی ،گیس اور دوسری سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ، احمد علی ڈھلوں بڑے بے باک صحافی ہیں ،آج اتنی تعداد میں لوگوں کا اکٹھا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم سب احمد علی ڈھلوںسے بہت پیار کرتے ہیں۔ لاہور پریس کلب کے صدرارشد انصاری نے کہا کہ حکومت میڈیاانڈسٹری کے مسائل سنجیدگی سے حل کرنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرزکو ساتھ لیکر چلے اس وقت ملک میں اخبارات اور ٹی وی چینلز بند ہورہے ہیںاورصحافی بڑے پیمانے پر بے روزگار ہوچکے ہیںاگر حکومت نے ان مسائل پر توجہ نہ دی تو پھر ملک بھر کے صحافی کارکن سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوجائیں گے اور پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے تاریخی درھرنا دیا جائے گا۔
تقریب میںموجود وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ بدقسمتی سے ملک بھرکے صحافی کارکن موجودہ حکومت کوصحافی دشمن خیال کر رہے ہیں،وفاقی وزیر کو چاہیے کے وہ اس تاثر کو ختم کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔ میڈیا مالکان بھی اپنے خساروں کی آڑ میں صحافی کارکنوں کی چھانٹیاں بند کریں، ان کے اداروں میں اربوں روپے کا منافع لانے والوں کوبے روز گاری کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔انھوںنے وفاقی وزیر کومخاطب کرکے کہاکہ حکومت نے نیوزون ٹی وی چینل کے مالک طاہراے خان کو وزیراعظم ہائوس میں بٹھالیاہے جبکہ ان کے ادارے میں صحافی کارکنوں کو چارماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیںاب حکومت بتائے کہ یہ کیا پالیسی ہے۔ صحافی کارکنوں کی آواز بلندکرتارہوںگا چاہے اس کے لئے ڈی چوک میںدھرنادیناپڑے یا لاہور کے چیرنگ کراس کو بند کرنا پڑے۔ انھوں نے وفاقی وزیر کو یہ بھی کہاکہ حکومت آنی جانی شے ہے جو کل حکمران تھے وہ آج کوٹ لکھپت جیل میں ہیں اور جو آج حکمران ہیں اور اگر انوںنے صحافی کارکنوں اورعوام کی آواز نہ سنی تو ان کی منزل بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوگی۔سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا کہ علی احمد ڈھلوں پاکستانی صحافت کے ایک نڈر اور بے باک سپوت ہیں۔
علی احمد ڈھلوں کا تعلق کھْڈیاں کے ایک بڑے اور معزز زمیندار گھرانے سے ہے، صحافت کو ہمیشہ ایک عبادت سمجھ کر کیا، روزنامہ لیڈر اور مْقابلہ کے چیف ایڈیٹر بْلند پائے کے کالم نگار بھی ہیں، اْنکا کالم ”تلخیاں” روزنامہ ایکسپریس میں چھپتا ہے، اْنکا انداز بیاں سادہ اور بغیر کسی لگی لپٹی کے عوام کے مسائل اور حْکمرانوں کی کوتاہیوں کو اْجاگر کرتے ہیں۔ ایک زندہ دل اور نفیس انسان ہیں۔ رکھ رکھاؤ اْنکا قیمتی اثاثہ اور دوستوں کے بہترین دوست ہیں۔ اْنھوں نے جس بہادری سے کچھ دہائیوں پہلے ”جہاں ظْلم وہاں خبریں” انسپیکشن ٹیم کی بْنیاد ڈالی وہ قابل فخراور جس طرح معاشرے کے منفی عناصر اور ظالموں کو کٹہرے میں کھڑا کیا وہ بھی قابل تحسین ہے۔
علی احمد ڈھلوں میرے ادارے کے بہترین کارکن تھے جن پر مجھے فخر ہے انہوں نے میرے ادارے میں ایسا کام بھی کیا جو عوام نے صرف فلمی سین میں دیکھا ہوگا لیکن اس نے حقیقت میں ایسا کیا انہوں نے ایک دفعہ قاتل کو تختہ دار سے چند منٹ پہلے اس کی زندگی بچائی مقتول کے لواحقین سے صلح نامہ کروا کر۔ علی احمد ڈھلوں ایک بہادر ،سچا اور کھرا انسان ہے۔ اس کی کتاب تلخیاں بہت اچھی کتاب ہے جو ان کے تمام کالموں کا مجموعہ ہے۔ یتقریب سے خطاب کرتے ہوئے تلخیاں کے مصنف علی احمد ڈھلوں نے کہا کہ ضیاشاید میرے استاد ہیں میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا آج میں جس مقام پر ہوں انہی کا مرہون منت ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں آج میڈیا بحران کا شکار ہے حکومت کو اس طرف توجہ دینی ہوگی اگر اخبار کو اشتہار نہیں ملیں گے تو مالکان ورکرز کو تنخوائیں کہاں سے دیں گے۔ وزیر اطلاعات ہمارا مؤقف وزیراعظم عمران خان تک پہنچائیں۔علی احمد ڈھلوں کی کتاب کی تقریب رونمائی بلاشبہہ ایک یادگار اور منفردتقریب تھی جس میں سینئر ز کو سننے کا موقع ملا۔کھڈیاں اور قصورکے صحافی علی احمد ڈھلوں کو تلخیاں کی اشاعت اور تقریب رونمائی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔