ہاتھوں میں کتاب کی جگہ اوزار تھامے بچے

Child Labor

Child Labor

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری

ایک جملہ جو اکثر سننے اور لکھنے میں آتا ہے کہ “بچے کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں “دنیا بھر کے تمام ممالک اس سرمائے اور اثاثہ کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے پالیساں بناتے رہتے ہیں ان پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے یہ مختلف ممالک کے برسر اقتدار طبقہ اور وہاں کے افراد کی مجموعی سوچوں کی عکاسی کرتا ہے جن ممالک میں بچوں کے ہاتھوں میں قلم و کتاب کی جگہ اوزار ہوں وہاں غربت ،افلاس اور معاشرتی ناہمواریاں جا بجا نظر آئیں گی ترقی پزیر اور معاشی طور پر غریب ممالک میں بچوں کے ہاتھوں کی لکیریں غربت افلاس اور گھریلو مجبوریوں کہانیاں سنا رہی ہوتی ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک اور اقوام متحدہ کا ادارے اِن مزدور بچوں کے لئے سال میں ایک دن منانے اور ترقی پزیر ممالک کو اِن بچوں کی فلاح وبہبود کے لئے بھاری فنڈز مختص کر کے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو جاتے ہیں لیکن یہ فنڈز کس حد تک اِن ہی بچوں کی فلاح کے لئے استعمال ہوتے ہیں یہ ایک اہم سوال اور لمحہ فکریہ ہے ، سانچ کے قارئین کرام ! وطن عزیز پاکستان میں معاشی بد حالی ،غربت ،بے روزگاری خاص طور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے بچوں کے ہاتھوں میں کہیں اوزار ، کہیں کسی امیر کے گھر جھاڑو پونجھااور کہیں کسی ہوٹل میں برتن مانجھنے،کہیں کسی بھٹہ میں گارے میں اَٹے اینٹیں بناتے دیکھے جا سکتے ہیں جیسے کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ یہ معاشرتی لعنت دنیا بھر میں موجود ہے لیکن وطن عزیز پاکستان جو کہ ایک اسلامی فلاحی مملکت کے طور پر وجود میں آیا یہاں اِس بڑی تعداد میں معصوم بچوں کا سکولوں کی بجائے گھروں ،ہوٹلوں ،ورکشاپوں میں کام کرنا بہت بڑا المیہ ہے۔

اگر گزشتہ تین دہائیوں کے معاشی معاشرتی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس بات سے مکمل اتفاق کیا جائے گا کہ ہمارے معاشرہ میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتاگیا ہے یہاں راتوں رات امیر بننے والوں نے بچوں سے مزدوری کو کبھی بُرا خیال نہیں کیا بلکہ اِن نو دولتیوں کے ہاں بعض خاندان کا خاندان ہی ملازم ہوتا ہے اور ملازم خاندان کے پیدا ہونے والے بچے بھی ملازم ہی رہتے ہیں۔

ظلم کی انتہا یہ کہ یہ ملازمت کرتے معصوم بچے اکثر اوقات اِن امیروں کے تشدد کا بھی نشانہ بنتے ہیں اوربعض تشدد کا شکار ہوکر زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بہت بڑی تعداد میں معصوم بچے مختلف چوراہوں اور سڑکوں کے کنارے غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکرپھول ،انڈے یا دیگر اشیاء بیچتے دیکھے جاتے ہیں ان بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے بین الاقوامی ایجنسیاں بھاری فنڈز بھی جاری کرتی ہیں اور حکومت کے ادارے بھی قائم ہیں جو اِن بچوں کی صحت تعلیم کے لئے کام کر رہے ہیں لیکن زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو چند شہروں یا علاقوں میں پچاس فیصد سے بھی کم کام ہوتانظر آتا ہے بھاری بھرکم تنخواہیں وصول کرنے والے افسران مختلف کمیٹیوں کے اجلاسوں میں سب اچھا کی رپورٹ دیکھاتے نظر آئیں گے ،غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ پچاس لاکھ سے زائد بچے سکول جانے کی عمر ہونے کے باوجود سکولوں سے باہر ہیںجن میں سے اکثریت مختلف شعبہ جات میں بطور ملازم کام کر رہے ہیں۔

پاکستان میں سرکاری طور پرگزشتہ چند سالوں میں ملازم پیشہ بچوں کا باقاعدہ سروے تو نہیں ہوا لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق چودہ سال سے کم عمر مختلف شعبہ جات میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد پچاس لاکھ سے زائد ہے ،انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ہزاروں بچے چوڑیاں بنانے، سرجیکل آلات کی صنعت ، مچھلیاں پکڑنے کے کاروبار اور چمڑے کے کارخانوں میں کام کر رہے ہیں،سانچ کے قارئین کرام !وطن عزیز میں بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد گھریلو کام کاج کے لئے گھروں میں ملازمت کرتی ہے جن میں سے اکثریت معصوم بچیوں کی ہوتی ہے جو خود اپنے ہی ہم عمر بچوں کی دیکھ بھال کے لئے امراء کے ہاں ملازمت کرتی ہیں ان بچیوں پراکثر تشدد اور بعض کے ساتھ جنسی تشدد کی خبریں بھی گردش کرتی رہتی ہیں سابقہ پنجاب حکومت نے بھٹہ مزدور کے بچوں کے کام کرنے پر سخت ایکشن لیتے ہوئے چند اچھے اقدامات کیے تھے جوکہ قابل تعریف ہیں۔

بھٹہ مزدوروں کے بچوں کے لئے سکول اور مفت کتابیں ،یونیفارم ،صحت کی سہولیات جیسے اقدامات کو چیک کرنے کے لئے سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے پنجاب کے دور دراز کے بھٹوں کا اچانک دورہ بھی کیا جس سے بھٹہ مالکان اِس بات پرمجبور ہوئے کہ ان بچوں کی بہتری کے لیے کچھ اقدامات کیئے جائیں گزشتہ دنوں راقم کو چائلڈ لیبر کے حوالہ سے منعقدہ ڈسٹرکٹ ویجیلنس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کا موقع ملا اجلاس کو ڈسٹرکٹ لیبر آفیسر شفقت منیر نے بتایا کہ ضلع میں اب تک 95مزدوروں کے سوشل سیکورٹی کارڈ بنائے گئے ہیں ضلع میں بانڈڈ لیبر کی کوئی شکایت نہ ہے جبکہ بھٹوں پر چائلڈ لیبر کے کورٹ کیسز میں بھٹہ مالکان کو 5لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا ہے اور مزید مقدمات زیر سماعت ہیں اس موقع پرڈپٹی کمشنر مریم خا ں نے کہا کہ فیلڈ افسران کو متحرک ہونا چاہیے جبکہ بھٹہ مالکان اپنے مزدوروں کے مکمل اعداد و شمار محکموں کو فراہم کریں انہوں نے ہدائیت کی کہ محکمہ لیبر سمیت دیگر محکموں کے فیلڈ افسران چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لئے طے شدہ ایس او پیز پر عمل در آمد کو یقینی بنائیں اور فیلڈ افسران چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے دوران کاروائی کے ڈیجیٹل ثبوت بھی اکٹھے کریں تاکہ ان کو متعلقہ اتھارٹیز کے سامنے پیش کیا جا سکے۔

بانڈڈ لیبر کی کوئی شکایت نہ ہونا یقیناََ میرے لیئے حیران کن بات تھی اگر بانڈڈ لیبر کے بارے پڑھیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ آئی ایل او کے مطابق” جبری مشقت ہر وہ کام ہے جو کسی شخص سے اسکی مرضی کیخلاف لیا جائے اور وہ شخص یہ کام کسی سزا کے خوف سے کرنے پر مجبور ہو قرضہ جاتی غلامی جو کہ جبری مشقت کی ایک قسم ہے جبری مشقت دراصل ایک مزدور کے اپنے آجر (مالک/زمیندار/جاگیردار) سے قرضہ لینے سے شروع ہوتی ہے اور اگر مقروض اس قرض کو ادا کرنے سے قاصر رہے تو اسے قرض خواہ کے لیئے ایک معینہ یا غیر معینہ مدت کے لیئے مشقت یا خدمت انجام دینا ہوتی ہے “چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے حکومتی سطح پر کیے گئے اقدامات اپنی جگہ لیکن معاشرہ سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا،اس کے علاوہ کروڑوں روپے کے فنڈز حاصل کرنے والی این جی اوز کی کارکردگی کو بھی چیک کرنا ہو گا تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری
03336963372