گزشتہ ادوار میں اقتدار کے لیئے ، حکمرانی کے لیئے جہاں جنگیں شدومد سے کی جاتی تھیں تو حملوںقبضوں کے دوران کتاب خانوں ، لائبریریوں پر قبضہ کو بھی بنیادی اور ناگزیر گرداناجاتا تھا اور کتابیں اٹھاکر قبضہ میں لے لی جاتی تھیں اس عمل سے کتاب کی طاقت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ،کتاب قومی اقدار میں کلیدی حیثیت کی حامل ہے اور قوموں کی اقدار قوموں کے لیئے اہم ہواکرتی ہیں ،اور بنیادی اقدار کو بذریعہ علم ہی جانا جاتا ہے اور علم کے عمل میں کتاب کا سہارا لیا جاتا ہے، علم کے لیئے کتب کے مطالعہ کا عمل لازم وملزوم ہے ، مطالعہ کے بغیر انسان ادراک کے حصول میں کما حقہ کا میاب نہیں ہوسکتا ،مجھے ڈاکٹر عبدالرشید اظہر کے تاریخ ساز الفاظ آج تک بعینہ حفظ ہیں کہ مدارس کے فاضلین کو اساتذہ علم کی دہلیز پر لاتے ہیں آگے اب طالب علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذاتی مطالعہ کے ذریعے اس دہلیز میں داخل ہو کر اگلی منازل پر چل پڑے یا پھر وہیں سے واپس آجائے ، مطالعہ علمی پختگی کا سب سے بہترین ذریعہ ہے ،مدارس ، سکول ، کالجز یقینا طالب علم کو علم کی دہلیز پر لا کھڑا کرتے ہیں اور پھر شوق ، ذاتی لگن ، جذبے سے مطالعہ کے ذریعے علمی ارتقائی عمل عروج کی طرف لے جانا ہوتا ہے اور کتاب بینی کے ذریعے ذہنی جمود کو توڑا جاتا ہے۔
بچپن میں یہ جملہ سنا تھا کہ ” کتابیں باتیں کرتی ہیں ہمارا دل بہلانے کو ” یقینا اس وقت ایسا ہی محسوس ہوتا تھا ، کتاب بینی کی طرف راغب کرنے والے در اصل اخبارات میں موجود بچوں کا ہفتہ وار ایڈیشن پھول اور کلیاں تھا ، اسے پڑھتے تھے دل بہل جاتا تھا ،اور معلومات میں اضافہ بھی ،نت نئی معلومات، پہیلیاں ، لطائف کی وجہ سے سکول میں یہ امتیازحاصل تھا کہ بزم ادب یا کسی بھی اہم موقع پر کسی سرگرمی میں حصہ لینے میں کبھی بھی کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی ، بزم ادب ، سرگرمیوں میں شرکت پر جو انعامات ملنے کا سلسلہ شروع ہوا وہ یہی زیر تحریر موضوع کتاب ہے ، تب اسکے کسی عالمی دن یا اس کی اہمیت کے بارے کچھ خبر نہ تھی ، پھر ایک جملہ عرف عام میں سننے کو ملا کہ کتاب سے بڑھ کر کوئی بہترین اور برتر دوست نہیں ہوسکتا ، یقینا ا س میں سو فیصدصداقت ہے کہ یہ بہترین دوست ہے اس سے بہترین دوست کوئی نہیں ہوسکتا ، کتاب کی تاریخ انسان کی تاریخ کے قریب قریب ہے ،دل بہلانے کا کام کتاب خوب بلکہ بہت خوب انداز میں کرتی ہے۔
جب معلومات کا خزانہ انسان سمیٹنے میں مصروف ہو تا ہے تو کتاب یقینا ایک بہترین دوست ثابت ہوتی ہے جب مختلف علوم وفنون سے انسان اسی کتاب کے ذریعے شناسا ہوتا ہے تب یہ کتاب ایک بہترین راہ نما ہوتی ہے ، علم کی ترسیل ، تدوین ، اشاعت وترویج میں بنیادی کردار کتاب کا ہی ہے ،کتاب تنہائی کا بہترین رفیق کار اور سفر کا سب سے برتر ہم سفر ہے ،کتاب بذات خود ایک بہت بڑی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی صاحب بصیرت وفراست کبھی بھی انکار نہیں کرسکتا ، میرے نزدیک کتاب بہترین شجر سایہ دار ہے ،کتاب کا عالمی دن ہر سال کی طرح اس سال بھی 23 اپریل کو منایا جائے گا ، کتاب اور انسان کا ایک قدیم وابستگی کا تعلق ہے ، عصر حاضر میں کتب بینی کی روایت دم توڑتی جارہی ہے مگر اس ضمن میں کئی ایک اقدامات حوصلہ افزا ہیں کہ کتب بینی کے فروغ کا سلسلہ کسی حد تک جاری ہے ،کتاب کی اہمیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اسی اہمیت کے پیش نظر اقوام متحدہ کے عالمی ادارے یونیسکو کی طرف سے 23 مارچ کو عالمی یوم کتاب کے طور پر منائے جانے کا اعلان کیا گیا ، جسکے بعد سے اب تک یہ دن منا یا جارہا ہے اور یہ دن نہ صرف کتب بینی کے حوالے سے منسوب ہے بلکہ کتب کے ہی کاپی رائٹ ایکٹ کے حوالے سے بھی منایا جاتا ہے ، جسمیں جملہ حقوق یعنی کاپی رائٹ اور پبلشرز کے حقوق بنیادی قواعد قوانین کی اہمیت کو اجا گر کیا جاتا ہے اسے یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہے کہ اس وقت یہ دن مطالعہ ، کتب بینی کی یاد دہانی کا دن ہے ، اسی پیش نظر ہمیں کتب بینی کے فروغ کے عزم کا اعادہ کرنا چاہیئے ، تمام تر مذاہب میں بھی کتب بینی اولین اہمیت کی حامل ہے ،آج اشاعت کتب بھی ایک مسئلہ بن کر رہ گیا ہے مہنگائی کے پیش نظر نا صرف کتب کی اشاعت ایک مشکل امر بن کرہ رہ گیا ہے تو اسی بناء پر کتب کی خریداری کا عمل ناپید ہوگیا ہے اور باقی ماندہ لائبریریاں بھی ویران ہوچکی ہیں۔
آج کتب کا مطالعہ صرف تحقیقی مقالہ جات کی تشکیل وترتیب تک کے لیئے محدود ہوکررہ گیا ہے ، مگر اس کے باوجود آج بھی اس حوالے سے کئی ایک حوصلہ افزا احباب ، کتب میلہ ایسے اقدامات کے سبب کتاب بینی کسی نہ کسی شکل میں باقی ہے آج انٹرنیٹ کو کتاب بینی کے خاتمے کا موجب قرار دیا جارہا ہے مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ انٹر نیٹ نے ہی تمام کتب کو انسان کی دہلیز پر پہنچا دیا ہے استفادہ حاصل کرنا ہمارا کام ہے ، کتب بینی اور اشاعت کتب کے لیئے کام کرنے والے لوگوں کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں ، آئیے عزم کریں کہ کتب بینی کی دم توڑٹی ہوئی روایت کو ہم زندہ کریں ماضی ، روشن تاریخ سے آشنا ہوکر ہم اپنے مستقبل کو تابندہ کریں،تمام ترکتب کی اہمیت اپنی جگہ مگر کرہ ارض پر قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی کتاب عظیم المرتبت نہیں۔ ختم شد ،