تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ میں نے شورش کاشمیری کی کتاب فیضانِ اقبال سے مطالعہ کے دوران فیض حاصل کرتے ہوئے، علامہ اقبال کی یہ بات پڑھی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے شعر کا خود مطلب بیان نہیں کرتا کہ اس طرح حدبندی ہو جائے گی۔ میرے شعر کو ہر کوئی اپنے مزاج اور سوچ کے مطابق سجھے۔ دوسری جگہ کہتے ہیںکہ میرے شعر کو سمجھنے کے لیے پہلے قرآن اورسنت کو سمجھناچاہیے۔ میر اشعر تب سمجھ میں آئے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ علامہ اقبال اپنے کو سمجھانے کے لیے راست بند نہیں کرتا ۔ بلکہ راستے کھلے رکھتا ہے تاکہ نئے نئے انداز سے نئے نئے وقتوں میں علامہ اقبال کو لوگ اپنی بصیرت اور قرآن و سنت سے لگائو کے ذریعے سمجھیں۔یہ ایک آفاقی کلیہ ہے جیسیء فلسفی شاعر علامہ اقبال نے لوگوں کے سامنے رکھا۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ علامہ اقبال خود قرآن اور سنت میں غرق تھا اور لوگوں کو بھی اسی کی نصیحت کرتا تھا۔ اس تناظر میں علامہ اقبال نے امت مرحومہ کو جگانے کی کوشش کی تھی۔صلیبیوں کی ریشہ دوانیوں پر گرفت کر کے ان کی خرابیوں سے امت کو ہوشیار کیا۔
صاحبو!اقبال نے اس وقت امت مسلمہ کو جھنجھوڑا جب وہ مختلف صلیبی قوموں کی غلامی میں جھکڑی ہوئی تھی۔ استعمار نے مسلمانوں کواسے اپنی اصل سے بے گانہ کرنے کی تدبیریں کر رکھی تھیں۔ وہ تدبیریں کیا تھیں۔ برصغیر جس پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی تھی اس میں برطانوی استعمار مسلمانوں پر حکومت کر رہا تھا۔ اس نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا ۔ اس لیے وہ مسلمانوں کو دبا کر رکھتا تھا اور ان کے دشمن ہندوئوں کو آگے آگے رکھتا تھا۔ شاید اسے اس چیز کا ڈر تھا کہ کہیں وہ پھر اس سے قتدار چھین نہ لیں۔ جب وہ برصغیر میںپہلے پہلے قدم جما رہے تھے تو اپنے لوگوں کو ہدایت دی تھی کہ مورو (یعنی مسلمانوں )کو قتل کرو۔ اور ہندوئوں کو سرکاری کاموں پر لگائو۔ اسی طرح افریقہ میں مسلمانوں کو فرانسیسی صلیببی استعمار نے غلام بنایا ہو اتھا۔عرب میں لارنس آف عریبیہ جیسی پُر اسرارشخصیت مسلمانوں کے بھیس میں مسلمانوںکو قوم پرستی کے جال میں پھنسا رہیں تھیں۔ ان سب سامراجیوں نے لڑائو اورحکومت کرو کی پالیسی اختیار کی ہوئی تھی۔ان استعماری قوتوں نے اپنے مصاحب میں پہلے ایسے لوگ پیدا کیے جو ان کی نکالی کر کے واپس اپنے لوگوں کو اس نکل پر چلنے پر تیار کریں۔ اور بلا آخر عام مسلمان بھی اسی طرح کے ہو جائیں۔اس ہی تصویر کشی کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
وضع میں تم ہونصاریٰ تو تمدن میں ہنود۔ ۔ ۔ یہ مسلمان ہیں!جنہیںدیکھ کر شرمائیں یہود۔
استعمار نے اپنی آقائی خصلتوں کی وجہ سے مسلمانوں میں بے یقینی جیسے حالات پیدا کر دیے تھے۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے علامہ اقبال مسلمانوں کے ترجمان بن کے سامنے آ ئے۔ ان کی اس ہی خوبی کی وجہ سے مسلمان انہیں شاعرِ اسلام کے لقب سے بھی نوازتے ہیں۔ شاعرِ اسلام نے اپنی قوم کو اپنے شعر میں اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے دراصل اپنی مسلمان قوم سے مخاطب ہو کر کہتاہے:۔
اقبال بڑا اُپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے۔ گفتار کا تو غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا۔۔۔
کہ اے میری قوم کے رہبرو ، ناصح ،اُستادوںاورواعظ کرنے والوں۔۔۔تم بڑے اُپدیشک ہو۔محراب و ممبر سے ایسی باتیں کر رہے ہو کہ تم عام مسلمانوں کے دل موہ لیتے ہو۔مگر تمھارا یہ صرف ناصح،اسُتاد اور واعظ والا کردار، وہ کردار نہیں ہے، جسے تمھارے لیے تم تمھارے رب نے تجویز کیا تھا۔ تمھارا کرداروہ ہونا چاہیے جو قرآن حکیم اورسنت ِرسولۖ اللہ سے ملتا ہے۔قرآن حکیم کہتا ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے۔خلیفہ ایسا جیسے دنیا کی حکومتیں کسی صوبے کا کسی کاگورنر بنا کربھیجتی ہے۔ اس کا کام حکومت کی پالیسیوں کانفاذکرنا ہو تا ہے۔ انسان اللہ کا ،اللہ کی اس زمین میں خلیفہ ہے۔ اس کا کام صرف یہ کہ وہ اللہ کے احکامات کو اللہ کے بندوں پر نفاذ کرے۔ اگر انسان یہ کام کرے تو،شیطان اور اس کے چیلوں نے جس دنیا کو دکھوں سے بھر دیا ہے۔ اس کو جنت کا نمونہ پیش بنا دے۔ علامہ اقبال اس لیے کہتا ہے کہ خلیفہ ہے تُو بڑا اُپدیشک کہ اپنے واعظ کر کے، لوگوں کو من باتوں میں موہ لیتا ہے۔مگر تُو صرف گفتار کا ہی غازی ہے ۔کر دار کا غازی نہیں ہے اور نہ ہی تُوامت مسلمہ کو کردار کا غازی بنا رہا ہے۔مسلمانوں کی اس حالت کو اگر ہم ایک مثال سے سمجھیں تو بات آسانی سے سمجھ آجائے گی۔ وہ اس طرح کہ، ایک شخص اپنی اولاد کے لیے ایک بہت ہی بڑا باغ چھوڑ کر گیا۔ اس کی اولاد ہر وقت اپنے والد کے باغ کی تعریفیں کرتی رہی ہے۔
ایک بیٹا کہتا ہے میرے والد نے اس باغ کے درخت بیرونی دنیا سے منگوایا تھے جوبہترین پھل دیتے ہیں۔ دوسرا بیٹا کہتا کہ اس باغ کی زمین کے لیے میرے والد نے پانی کی نہر اتنے دور سے لائی تھی جو اسکو سہراب کرتی ہے ۔اس طرح کی اپنے والدکے باغ کی تعریفیں کرتے کرتے تھکتے نہیں۔ مگر اس باغ کے پھلدار درختوں میںکیڑا لگ رہا ہے۔ اس کے درخت پانی کی کمی کی وجہ سے وقت سے پہلے سوکھ رہے ہیں۔ باغ میںخزاں کا ساسماں ہے۔کیا امت مسلمہ اس فریب میں مبتلا نہیں رہی؟ کہیں فرقہ بازی کی تقریریں ہو رہی ہیں۔ کہیںنور بشر کے قصے چھڑے ہوئے ہیں۔ کہیں کہا گیا درود سلام ایسے پڑھنا چاہیے ایسا نہیں ۔کہیں کہا گیا دین میں سیاست کا دخل نہیں۔امت مسلمہ کااُپدیشک واعظ ایسی من موہ لینے والی باتوں میں غافل امت کے منہ ،موہ لیتا ہے۔ اس طرح گفتار کا غازی تو بن جاتا ہے مگر کردار کا غازی نہیں بنتا۔ جو کام زمین میں خلیفہ بنا کر اس کے اللہ نے اس کے ذمے لگایا ہے۔ یعنی اصل کام اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کوبلند کرنے کی باتیں نہیں کرتا۔ پھر علامہ اقبال نے بتایا ،اے امت کے اُپدیشک واعظ ،تمھیں اللہ کے کلمے کوبلند کرنے کے لیے مہمیز کہاں سے ملے گی۔ شعر کی زبان میں اس طرح کہتے ہیں:۔
کی محمدۖ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں۔ یہ جہاں چیز ہے کیالو قلم تیرے ہیں۔
جس طرح رسولۖ اللہ نے ،اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے کام کیا۔ اے اُپدیشک خلیفہ اگر تو ایسا ہی کریگا تو محمدۖ سے وفا کرے گا۔ یعنی اگرتُو اللہ کے دین کو قائم میں لگا ہوا ہو گا تو،تُو اللہ کے پیغمبر ۖ سے وفا کر رہا ہو گا۔ اور اگر تو اللہ کے پیغمبرۖ سے وفا کرے گا۔ تو اس جہاں کی باگ دوڑ بھی تمھیں ملے گے اورآخرت میں تو، تُو ہی سرخ رُو رہے گا۔ اور ہاںاللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے نہ سوچ کہ میرے پاس اتنامال، دولت اور وسائل ہوں گے تو میں جد وجہد کروں گا۔ نہیں نہیں!جس حالت میں ہو، اسی میں ہی اللہ کے دین کو سربلند کرنے لیے کام شروع کر دو۔ غریبی یعنی وسائل کی کمی میں اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی کرو ۔کیا فرعون اور موسیٰ کے حالت تم تک نہیں پہنچے ۔ کیسے دنیا کے سامنے، اللہ نے برسوں سے دببی ہوئی غلام بنی اسرائیل قوم کو فتح نصیب فرمائی ۔وسائل کے خزانوں اور قوت سے بھرپور متکبر فرعون کو دنیا کے سامنے غرق کر دیا۔ اس پوزیش کو علامہ اقبال نے اس شعر میں بیان کیا ہے:۔
مِرا طریق امیری نہیں فقیری ہے۔ خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر۔
صاحبو!علامہ اقبال کے کہنے کے مطابق، علامہ اقبال کو سمجھنے کے لیے پہلے اللہ کے قرآن اور رسولۖاللہ کی سیرت کو سمجھنا ہو گا۔ اس سے علامہ قبال، امت کو ایک طرح سے اللہ کے قرآن اوررسولۖاللہ کی سیرت کو سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ہم نے علامہ اقبال کو ، اپنے اس کالم میں،قرآن اور سنت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے علامہ اقبال کو فیضان ِاقبال کتاب، جواس کے شیدائی شورش کاشمیری نے لکھی ہے میں دیے گئے، علامہ اقبال کے بیان کیے گئے کلیہ کے مطابق ان کے ایک شعر:۔
اقبال بڑا اُپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے۔ گفتار کا تو غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا۔۔۔
کی تشریع کرنے کی کوشش کی ہے۔ پسند آئے تو میرے حق میں دعا کریں۔اگر تشریح صحیح نہ ہو تو پھر بھی دعا کریں کہ میں علامہ اقبال کو قرآن اور سنت کی روشنی میں سمجھنے کی مذید کوشش کروں آمین۔