گزرے دنوں میں، کبھی نانی اماں اور کبھی دادی اماں اپنے چھوٹے بچوں کو کہانیاں سنا سنا کر رات کوسُلایا کرتی تھیں۔اسی طرح بادشاہ اپنے چیلوں کے ذریعے ، اپنی رعایاکو اپنی بہادری اور شان و شوکت کی کہانیاں سنا سنا کر اپنا رعب ڈ الا کرتے تھے۔مگر آج جن تین کہانیوں کی کتاب”کئی سال پہلے” ہمارے مطالعہ میںہے۔ اس میں نہ نانی نہ دادی والی کہانیاں ہیں نہ ہی بادشاہوں والی کہانیا ں ہیں۔ یہ ایک شخص ڈاکٹر محمدظہیر اختر صاحب کی لکھی ہوئی حقیقی اور افسانوی واقعات کی کہانیاںہیں۔ ہمیں یہ کتاب مطالعہ اور تبصرہ کے لیے جناب ڈاکٹر پروفیسر عطاللہ خان یوسف زئی کی معرفت ملی۔
اس کتاب میں پہلی کہانی برطانیہ کے ایک علاقے سائوتھ ویلز کے ایک چھوٹے سے گائوںکُم ڈیئر کی ایک عمر رسیدہ خاتون کرسٹی کی کہانی ہے۔یہ خاتون ایک بنگلے میں ملازم تھی۔کام سے فارغ ہو کر کبھی کبھی بنگلے کے باہرکھڑی ہوکر باہر کا نظارہ کرتی تھی۔ صاحب تحریر گورنمنٹ ملازم ہونے کے ناتے کرسٹی کے بنگلے کے قریب سرکاری کواٹر میں رہائش پذیر تھے۔کواٹر آتے جاتے کرسٹی سے شناسائی ہو گئی۔ پھر اس خاتون کی دکھ بھری زندگی کی کہانی اس سے سن کر تحریر کی ۔ لکھتے ہیںیہ خاتون ویلز کی رہنے والی ہے۔ یہ تقسیم ہند سے اپنے شوہرکے ساتھ برصغیر آئی تھی۔ بٹوارے سے پہلے اس کا شوہر ریلوے میں ملازم تھا۔ بٹوارے کے بعد پاکستان ریلوے میں ملازمت اختیار کر لی۔ پہلے وہ اسلام آباد سے لندن ویلز کے ایک گائوں کُم ڈیئر وہ اپنے علاقے میںاپنے رشتہ داروں سے ملنے جا یاکرتی تھی۔ بلکہ کئی دفعہ رشتہ داروں کے ساتن مل کر کرسمس بھی مناتی رہی۔جب سے اس کے شوہر فوت ہواتوچار سال تک جاتی رہی پھر سلسلہ رک گیا۔ اس کے بعد وہ اپنے شہر کبھی نہیں گئی۔اسکے میاں کی میت کو رولپنڈی کے گورا گرستان میںدفنا دیا گیا۔ یہ عمر رسیدکرسٹی اپنے شوہر سے وفاداری نباتے ہوئے آخری عمر تک اپنے وطن ویلز نہیں گئی۔ ہرا یتوار پراپنے خاوند کی قبر پر جار کر پھول پتیاں نچھاور کرتی رہی۔ پہلے مری میں اسکول ٹیچر رہی۔ پھر اسلام آباد سیکٹر ایف سیکس کے ایک بنگلے میں ملازمت اختیار کر لی۔ مالکن اسے کام میں دیر ہونا پرڈانتی تھی۔
ایک دفعہ کسی کام میں دیر ہونانے پر اس کی ٹانگ پر چھتری ماری کہ اس کی ٹانگ زخمی ہو گئی۔ کرسٹی نے بتایا کہ کچھ عرصہ تو رشتہ داروں سے خط کے ذریعے خریت معلوم ہو جاتی تھی مگر یہ سلسلہ بھی رک گیا۔ حس اتفاق کہ صاحب تحریر کو اس کے محکمے نے لندن جانے کے لیے تین مہینے کے کورس کے لیے سیلکٹ کیا۔ کرسٹی نے انہوں نے وعدہ کیا کہ کورس کے دوران وہ اس کے خاندان کے مل کر ان کی خیریت سے آگاہ کرے گا۔ صاحب تحریر کورس کے دوران کرسٹی کے رشتہ داروںمیں سے اس کے چچا برائن کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ان کو بتایا کہ کرسٹی اسلام آباد پاکستان میں رہ رہی ہے۔کرسٹی کے چچا اور اس کے بچوں نے کرسٹی کے لیے تحائف دیے۔ واپسی پر ان کو تحائف دینے کے لیے کرسٹی کے بنگلے پرگیا تو معلوم ہوا کہ گھر پر تالہ پڑھا ہوا ہے۔ وہ پریشان ہوا۔ برابر کے بنگلے سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ بنگلہ کئی کئی دن بند رہتا ہے۔
چوکیدار عبدل ہفتے دس دن پر آکر صفائی کرکے چلا جاتا ہے۔اس نے چوکیدار کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ایک دن چوکیدار سے ملاقات ہو ہی گئی۔ چوکیدار سے معلومات حاصل کرنے پر پتہ چلا کہ کرسٹی فوت ہو گئی ہے۔ صاحب تحریر کو اس کا بہت صدمہ ہوا۔چوکیدار نے بتایا کہ اس کی موت پر برابر کی چرچ کو اطلاع دی اور چرچ والے اس کی میت لے گئے۔اسے رولپنڈی کے گورا قبرستان میں اس کے شوہر کی برابر دفنا دیا گیا۔ صاحب تحریر نے کرسٹی کے رشتہ داروں کے دیے ہوئے تحائف اس چوکیدار عبدل کو دے دیے۔ کرسٹی ایک بنگلے میں ملازم رہ کر زندگی کے آخری دن گزاتی رہی۔ مگر دوسری طرف جس گھر میں ملازم تھی اس گھر کی خاتون اپنی نیک سیرت شوہر سے ہمیشہ لڑتی جھگڑتی رہی۔ ایک دن شوہر گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ پھر میاں بیوی میںعلیحدگی ہو گئی۔ (یہ اس رواج کا شاخسانہ ہے کہ مرد نے اپنا گھر اپنی بیوی کے نام کر رکھا تھا) اس کہانی میں ہمیں وفاداری اور بے وفائی کا ایک سبق ساتھ ساتھ نظر آیا ہے۔
اس کتاب کی دوسری کہانی میں ایک کمپوٹر انجینئر کی کہانی ہے جو گورنمنٹ پاکستان کے ملازمین کوکمپیو ٹرکورس کراتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکی ایئر فورس پائلٹ رہ چکا ہے۔ برما کے جنگی محاذپرجا پان کے جہازوں کی زد میں آکر اس کا جہاز تباہ ہو جاتا ہے۔ وہ ناگا لینڈ کے جنگلوں میں پیرا شوٹ سے گرا۔بدھ مت مذہب کے بھکشوں نے اسے جنگل میںزخمی حالت میں دیکھا۔ اس کی ایک ٹانگ بھی ٹوٹ چکی تھی۔ وہ جنگل میں بھگشوں کی جھوپڑیوں میں زیر علاج رہا۔ بھگشوں اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کاعلاج کیا۔ اسے دو سال اپنے پاس چھوپڑیوں میں رکھا۔اس کے ساتھ بہترین انسانی سلوک کیا۔( لگتا ہے وہ برما کے موجودہ والے بھگشوں جیسے نہیں تھے جنہوں نے برما کے مسلمانوں پر سفاکیت
٢ سے ظلم و ستم ڈھائے ہیں) دو سال تلاش کے باجود نہ ملنے پر امریکی فوج نے اسے فوت شدہ قرار دے کر اس کے گھر والوں کو اطلاع دے دی۔ مگر وہ مختلف راستوں ہوتا ہوا ایک دن اپنے اپنا گھر امریکا زند جاوید پہنچ جاتا ہے۔اوّل عمر میںجس خاتون سے اس نے دوستی کی تھی ،اپنی ملازمت کے دوران انتظار کرتا رہا، کہ واپس جا کر اس خاتون سے شادی کرے گا۔ مگر جب گھر پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ اس خاتون نے کسی اور سے شادی کر لی ہے۔اس کہانی میں بھی ہمیں بھگشوں کا انسانی ہمدری، پیار ، محبت اور قربانی کا عنصر ملا۔
تیسری کہانی ایک بنگالی چپڑاسی نورالسلام عرف نورو کی ہے۔ جو پاکستان اسلام آباد میں ایک سرکاری دفتر میں چپڑاسی کی حیثیت سے ملازم تھا۔ جو ایک سرکاری آفیسر محمود صاحب کے گھر خانسامے کا کام کرتا تھا۔ سرکاری دفتر سے چھٹی لے کربنگلہ دیش شادی کے لیے جاتا ہے ۔اپنے شہر میں اس کی شادی ہو جاتی ہے۔مگر بنگلہ دیش میں قوم پرستوں کی علیحدگی کی تحریک کی وجہ سے پاکستان نہیں آسکا۔ پاکستان سے محبت اسے ستاتی رہی ہے۔ ١٩٧١ ء کے متحدہ پاکستان کے الیکشن کے وقت وہ اپنے شہر نرائن گنج میں ہی تھا۔ سارے حالات سے باخبر تھا۔پھر اس کی دو بہنوں اور اس کی شادی ہو گئی۔ بعد میں اس کا ایک لڑکا بھی ہوا۔ اس نام اپنے مالک محمود صاحب کے بیٹے نام پر امجد رکھا۔جب اس کا دوست پاکستان اسلام آباد سے بنگلہ دیش جانے لگا تو محمود صاحب نے شادی کا تحفہ ایک خوبصورت بھیجی تھی۔ اس لڑکا جب جوان ہوا تو قوم پرست بنگالیوں کی طرح مغربی پاکستان کے لوگوں کو بڑا بھلا کہتا تھا۔ نورالسلام اسے سمجھتا تو اسے کچھ سمجھ نہی آتا۔ایک دن نورالسلام نے اپنی شادی کے تحفے میں محمود صاحب کی طرف سے آئی ہوئی گھڑی دکھائی اور اسے اپنے بیٹے کو دی۔اور اسے سمجھایا کہ بیٹا دیکھوں پاکستان کے سارے لوگ ایک دوسرے محبت کرتے تھے۔کیوں کہ پاکستان لا الہ الااللہ کے نام پر بنا تھا۔مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ دشمنوں نے ہمارے درمیان نفرت پھیلائی۔ خیر والد کے بار بار سمجھانے سے اس کے بیٹے کی آنکھیں کھلیں۔
تینوں کہانیاں پاکستان کے شہر اسلام آباد سے شروع ہوتیں ہیں اور لندن، امریکا اور بنگلہ دیش میں جا کر ختم ہوتیں ہیں۔یہ تینوں کہانی اپنے اندر ایک سبق لیے ہوئی ہیں۔ ڈاکٹرمحمد ظہیر اختر صاحب کی تینوں کہانیاں دادی نانی اماںکی کہانیوں کی طرح بچوں کو پیار محبت اور سچی کہانیاں سنا کر سبق سکھانی والی ہیں۔ان تینوں کہانیوں کے کردارویلنش نسل کی بو ڑھی خاتون کرسٹی جس نے اپنے خاوند سے ساری عمر نبھائی ۔امریکی کمپویٹر انجینئر کو بدھ مذہب کے بھگشیوںنے جنگل میں انسانیت، پیار و محبت سے رکھا۔ اورہمارابنگالی بھائی نورالسلام نے پاکستان اورپاکستانیوں سے محبت اپنی اولاد کو سیکھائی۔
دوسری طرف کرسٹی کی مالکن کہ جس نے اپنے وفاشعار خاوند سے بے وفائی کی۔قوم پرست بنگالیوں نے مسلمانوں کے ازلی دشمن بھارتی فوج سے مل کر اردوبولنے والوں کا قتل عام کیا۔ان تین کہانیوں میں ان دو متضاد رویوں کا ذکر کیا۔ ڈاکڑ محمد ظہیر اختر صاحب نے اپنے گزرے دنوںکی حقیقت کو اور کچھ افسانہ کو ملا کرالفاظ کی لڑی میں پررویا۔ انسانیت کے اچھے پہلوں کو اُجاگر کر کے انسا نیت کی خدمت کرنے کی جو کوشش کی۔ وہ واقعی قابل ستائش ہے۔پتہ نہیںاس کتاب کو دیگر پڑھنے والے حضرات کیسی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمیں تو کسی بھی کہانی کو پڑھ کر مثبت پہلو کو اُگر کرنے کی عادت ہے ۔ سووہ ہم نے پوری کر دی۔