تحریر : قاری محمد عبداللہ عصر حاضر میں کتب بینی کا عنصر عدم وجود کا شکار ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے مطالعہ کا رجحان تقریبا ختم ہونے کو ہے اگر مطالعہ یا کتب بینی کا سلسلہ کسی حد تک موجود ہے تو وہ تقریبا آٹے میں نمک کے برابر رہ گیا ہے۔مجھے یاد ہے کہ آج سے چھے ماہ قبل میرے خالہ زاد بھائی نے میونسپل پبلک لائبریری میں اپنا اکاونٹ کھلوایا تو وہاں کے انچارج خاکوانی صاحب نے خاصے حیرت سے لبریز انداز میں مسرت اور اپنی رائے وتبصرے کا اظہار کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ قاری صاحب کمال نہیں ہو گیا کہ یہ بندہ اکاونٹ کھلوا رہا ہے جبکہ لوگ اب لائبریری میں محض اخبار پڑھنے کے لیئے آتے ہیں ،کتاب کوئی دیکھتا ہی نہیں۔اسی طرح ایک معروف ادیب کہ جس نے ملتان بھر میں کتب بینی کے فروغ میں اہم عملی کردار ادا کیا انکے حوالے سے یہ مصدقہ خبر سننے کو ملی ہے کہ انہیں اب گھر سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ کتب بینی، کتابیں ، کتابیں، مطالعہ مطالعہ یہ کونسا کام ہے ،یہ بھی کوئی کام ہے بھلا؟ چند ایک معروف ادیب جنہوں نے اپنے گھروں میں لائبریریاں قائم کی ہوئی ہیں ان سے بھی یہ سننے کو ملا ہے کہ وہ لائبریریاں ختم کرر ہے ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی باعث تشویش ہے۔کتاب جیسا کوئی بہترین دوست اور ساتھی نہیں ہے۔ کتاب کو پی ڈی ایف، امیج، یونیکوڈ، آن لائن ریڈنگ یا جس بھی انداز میں یا جس بھی ٹیکنالوجی کے زریعے جس قدر بھی جدت سے مزین کر دیا جائے کتاب کی اصل کتابی صورت کی اہمیت روز اول سے قائم تھی ، عصر حاضر میں بھی قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی۔اصل کتابی شکل اگر نیٹ کا پیکیج نہ ہو، وائے فائی میسر نہ بھی ہو تو بھی کتاب کا مطالعہ با آسانی جاری وساری رہتا ہے۔
کتاب کی نہ تو بیٹری(چارجنگ) ختم ہوتی ہے نہ اس طرز کا کوئی اور مسئلہ دوران مطالعہ در پیش آتا ہے ۔اور کتاب ہمیشہ کے لیئے محفوظ بھی رہتی ہے جبکہ آن لائن ایسا ممکن نہیں ہے اگر سیو ( محفوظ) کر بھی لیا جائے تو ہمارے پی سی ( کمپیوٹر، ٹیب، موبائل) کی میموری ، وائرس ، ری سٹور، ڈیلیٹ جیسے خدشات بدستور قائم رہتے ہیں۔ بہر کیف کتب بینی کے خاتمے، مطالعہ کی عدم دلچسپی جیسی صورتحال کے باوجود آج بھی کتب بینی ، مطالعہ کی ترویج کے حوالے سے کئی ایک حوصلہ کن اقدامات اور تسلی بخش امور بھی موجود ہیں جوکہ خوش آئند ہیں۔مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کے لیئے جھنڈٰیر لائبریری کسی نعمت سے کم نہیں، حال ہی میں لاہور میں منعقدہ بک فیسٹیول بھی ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے۔جنوبی پنجاب میں کتب بینی کے عملی فروغ کے لیئے دو شخصیات کا کردار نا قابل فراموش ہے جو کہ تاریخ کا سنہری حصہ بن چکا ہے۔ ان میں ایک شاکر حسین شاکر ہیں جنہوں نے کتابوں کے اشاعتی عمل کے ذریعے اس سلسلے کو پروان چڑھایا اور نوائے وقت ملتان کے میگزین ایڈیٹرشیخ سلیم ناز نے نوائے وقت بالخصوص پھول اور کلیاں کے لکھاریوں میں کتب کی تقسیم ، انعامات کی صورت میں بھی کتب کی فراہمی ، تحفے کی صورت میں بھی کتاب کی فراہمی کے زریعے اس عمل کو بام عروج بخشا ہے ہر لکھاری سے کہا کہ اچھا لکھنے کے لیئے کتب کا مطالعہ کرو اور زیادہ اچھا لکھنے کے لیئے زیادہ سے زیادہ کتب کا مطالعہ کرو۔ اسی طرح بی زیڈ یو ، ایمرسن کالج ، آئی ایس پی سے بھی یہ اطلاعات اکثر سامنے آتی رہتی ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب ، ڈاکٹر امتیاز بلوچ،ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر افتخار گیلانی تحقیقی کام کرنے والے طلبا سے پہلے پوچھتے ہیں کہ کتنی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے؟
اگر تعداد کم ہو تو وہ طلبا کو دوبارہ مطالعہ کی راہ پر گامزن کر دیتے ہیں جس سے ان اداروں کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری طلبا سے کھچا کھچ بھری نظر آتی ہے اور طلبا کتابوں میں محو مطالعہ دکھائی دیتے ہیں۔ کتاب دوستی کے لیئے سجاد جہانیہ اور مرزا محمد یسین بیگ کی کا وشیں بھی قابل تحسین ہیں۔جہانیہ صاحب اور سر یسین صاحب نئے رائٹرز کو کتاب سے وابستہ کرنے میں پیش پیش ہیں۔یہ سب کاوشیں اپنی جگہ بجا ہیں مگر گزشتہ جمعہ کے روز مجھے ایک دعوت پر ایک ایسی جگہ کہ جو راستہ بھی انتہائی دشوار گزار، دیہاتی ماحول بہاولپور روڈ پر اڈا بلی والا کے نام سے معروف مقام سے آگے ایک گاوں چاہ جائی والا جانے کا خوشگوار اتفاق ہوا۔ اس گاوںکی آبادی تقریبا چند ہزار نفوس پر مشتمل ہوگی ۔ خیر سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد معروف ادیب ریذیڈنٹ ڈائریکٹر ملتان آرٹس کونسل سجاد جہانیہ، نوائے وقت کے سینئر کالم نگار اظہر سلیم مجوکہ، بزم احباب کے روح رواں فیاض احمد اعوان کی ہمراہی ورفاقت میں روانگی ہوئی اور بلی والا سے آگے احتشام الحق کی رہنمائی میں مقررہ مقام جائی والا پہنچا جہاں علی عمران ممتاز، جنید اکرم، حافظ نعیم احمد سیال ،دیگر رائٹرز ، اہلیان علاقہ کثیر تعداد میں موجود تھے۔
یہاں آنے کا مقصد اور یہ چند سطور رقم کرنے کا مقصد رائٹر ، کتاب دوست شخصیت مجید احمد جائی کی فیکٹری ملازمت سے ملنے والی تنخواہ سے گھریلو اخراجات پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سال کی جدو جہد سے قیام عمل میں آنے والی مجید جائی لائبریری کے افتتاح پر عصر حاضرمیں کتب بینی کے فرغ پر مجید جائی کو خراج تحسین پیش کرنا مقصود ہے۔آج جب لوگ کتاب سے دور ہو رہے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو لوگوں کو آج بھی کتاب کی اہمیت سے روشناس کر ارہے ہیں ۔ جائی لائبریری کا افتتاح ریذیڈنٹ ڈائریکٹر آرٹس کونسل سجاد جہانیہ نے کیا۔اور سجاد جہانیہ، اظہرسلیم مجوکہ، فیاض اعوان راقم نے اس عظیم کاوش پر مجید جائی کو خراج تحسین پیش کیا ۔ یقینا عصر میں یہ عظیم کاوش کر کے مجید جائی نے ہم سب کے لیئے مثال قائم کی ہے۔ یہاں لائبریری میں جہاں کتابیں، ناول، میگزین وغیرہ بہترین تقسیم وترتیب کے ساتھ کیٹیگریز کے حساب سے موجود ہیں وہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ کتاب دیہاتی ان پڑھ لوگوں سنائے جانے کی سہولت بھی موجود ہے۔ اس کاوش پر کتاب دوست نو جوان شخصیت کہ جس نے اپنی تنخواہ کا ایک حصہ لائبریری کی تعمیر، کتب کی خرید وحصول کے لیئے وقف کیا اور عظیم مقصد میں کا میابی سے ہمکنار ہوا اس پر پاکستا ن رائٹرز ونگ کے زیر اہتمام مجید احمد کے اعزاز میں بہت جلد ایک خوبصورت تقریب پذیرائی منعقد کی جائیگی جس کے لیئے چیئرمین پاکستان رائٹرز ونگ مرزا محمد یسین بیگ، جناب سجاد جہانیہ صاحب سے مشاورت اور انکی ہدایات کی روشنی میں بنیادی فریم ورک مکمل کر لیا گیا ہے۔۔بات دیہات، جگہ راستے ، مقام علاقے ،بلڈنگ کی نہیں ہوتی بات کا مقصد، نیت، عزم ، اخلاص، جذبہ اہم اور بامعنی اور ماحصل و منبع مقصود اور مطمع نظرہوتا ہے۔ بار دیگر اس عہد اس صدی ، افراتفری کے دور میں کتب بینی کی ایک کاوش پر سلام ائے مجید احمد جائی۔ یقینا اس لائبریر ی کے قیام کے نیک مقاصد مطالعہ وکتب بینی کے فرغ ضرور پورے ہونگے۔
علم وادب خوب پروان چڑھے گا۔ کتاب ، علم وادب کی تشنگی رکھنے والے کتب بینی سے خود کو لبریز کرینگے۔ مجید احمد جائی کا یہ تاریخی قابل تحسین ، قابل رشک اقدام ہے۔ یہاں جائی بھائی کی لائبریری کے افتتاح کی خوشگوار یادوں میں سے اس بات کا تذکرہ بھی ضرور کرنا چاہوں گا۔کہ جب کھیتوں میں ٹھنڈی ہوا ، درختوں کا سایہ اور لذیز بریانی لذت کام ودہن کے سلسلہ کے دوران لگنے والی گپ شپ بھی نا قابل فراموش ہے۔اس کا تذکرہ بھی اسلیئے کر رہاہوں جائی صاحب نے اعلان کیا تھا کہ لائبریری میں کتاب کے مطالعہ کے لیئے آنے والے کتاب دوستوں کو بھی ریفریشمنٹ کرائی جائے گی۔مجید جائی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس تقریب میں جن لفظوں کو شعر کے زریعے ادا کیا تھا وہی دھرنا چاہوں گا۔
شکوہ شب ظلمت سے کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی شمع جلاتے جاتے۔
مجید جائی نے شکوہ شب ظلمت کی بجائے شمع کو روشن کر دیا ۔ اس سے علم ودب چہار سو پھیلے گی۔