مقدس اوراق کی بے حرمتی

Holy Quran

Holy Quran

تحریر: مجیداحمد جائی

میں ملتان کی مشہور پریس پر کھڑا تھا۔ مجھے اپنے دوست کی شاعری کی کتابیں اٹھانی تھیں۔ کاریگر اردگرد کے ماحول سے بے نیاز اپنے کام میں مصروف تھے۔کتابیں تیاری کے مراحل سے گزر رہی تھیں۔ مجھے کچھ دیر انتظار کرنے کا کہا گیا۔سو وقت کی نزاکت تھی میں اردگرد کا جائزہ لینے لگا ۔پریس کے انٹر ہونے والے دروازے کے پاس کوڑا کرکٹ کا ڈھیر لگا تھا۔میری نظریں اس طرف اٹھ گئیں۔دوسرے ہی لمحے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔جسم کا روں روں کانپ اٹھا۔اس ڈھیر میں قرآن پاک کے پہلے سپارے کے اوراق گِرد سے اٹے ہوئے پڑے تھے۔کچھ کو دیمک چاٹ گئی تھی۔

ورکر اسی ڈھیر سے آجا رہے تھے۔میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔میں کانپ اٹھا۔جب ہم مقدس اوراق کی اس طرح بے حرمتی کریں گے تو آفات تو آئیں گی ناں۔ قدرتی آفات ہمارے ہی اعما ل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔پانی کا بے قابو ہو کر ہزاروں انسانوں کا نگل جانا،زمین کا پھٹ جانا،ایسے بہت سے واقعات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔یہ سب ہمارا کیا دھرا تو ہے۔

ہم روزمر ہ زندگی میں آتے جاتے،گلیوں کوچوں میں اس طرح اوراق کی بے حرمتی دیکھتے ضرور ہیںمگر نہ کسی کو روکنے کی زحمت کرتے ہیں نہ خود گواراہ کرتے ہیں کہ ان اوراق کو اٹھا کر کہیں محفوظ مقام پر رکھ دیں،یا انہیں دفن کر دیں۔بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی انجان بنے پھرتے ہیں۔اخبار ہوں،یا بکس،تدریسی کتابیں ۔ہم پڑھ کر انہیں ردی کے مول فروخت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔یوں ہم جان بوجھ کر گنا ہوں کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔شہروں میں بجلی کے کھبوں کے ساتھ لوہے کا بکس لٹکا تو آپ نے دیکھا ہی گا۔لوگ اوراق ڈالتے تو جاتے ہیں

Newspapers

Newspapers

مگر بہت سے اوراق پیروں تلے روندے چلے جاتے ہیں۔ مٹھائیوں کی شاپ ہو،یا پکوڑے سموسے والے اخباروں، کتابوں کے اوراق استعما ل کرتے نظر آتے ہیں۔کوئی روکنے والا نہیں ،بلکہ لبوں پر قفل لگائے ہم بھی برابر کے شریک ہیں۔شہر،محلے کی سیوریج نالیوں میں مقدس اوراق بہتے نظر آتے ہیں۔ہم اخبار تو بڑے شوق سے پڑھتے ہیں مگر دوسرے ہی لمحے پکوڑوں، سموسوں والوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔پھر اس اخبار کا جو حشر ہوتا ہے ،سب جانتے ہیں۔کسی کے پائوں کے نیچے،کوئی ناک صاف کر رہا ہے،کوئی اس میں روٹیاں لپیٹ کر جا رہا ہے۔کمال کی بات ہے ہم سب کچھ جانتے ہیں۔ہم مسلم بھی کہلواتے ہیں۔مگر خود ہی مذہب کے ساتھ کھیلواڑ کر رہے ہیں۔

اپنے ہی وطن میں کوئی غیر مسلم ایسی حرکت کرے تو ہم آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔خود جج منصف بن جاتے ہیںاور فتوے جاری فرما دیتے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے غیر مسلم مقدس مقامات،مقدس کتا ب کی بے حرمتی کرے تو ہم جلسے جلوس نکالتے ہیں۔سڑکیں بلاک کر دیتے ہیں۔کوئی حکومت کو بُرا بھلا کہہ رہا ہے تو کوئی سر پہ کفن باندھے مر نے کے لئے حاضر ہوتا ہے۔اپنے گربیان میں کسی کوبھی جھانکنے کی فرصت نہیں ہے۔ہم جانے انجانے میں روز مقدس کتابوں،اوراق کی بے حرمتی کرتے ہیں۔

ہمیں بھی سزا ملنی چاہیے۔ اخبار ہو ،یا تدریسی کتاب،قرآن مجید ہو، احادیث کی کتابیں ہمارے لئے مقدس ہیں۔ان کا احترام کرنا ہمارا اولین فرض بنتا ہے۔کیونکہ اخبار میں بھی بسم اللہ،قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں۔یہاں تک کہ اخبار ہوں یا کوئی تدریسی بک ایک ایک حرف ہمارے لئے قابل احترام ہے۔ہر لفظ پیارا ہے۔ہر لفظ قرآن مجید میں آتا ہے۔

مجھے ایک کتاب میں لکھا واقعہ یاد آرہا ہے جس کا لب لباب یوں تھا کہ ایک گناہ گار شخص دریا کنارے چلا جا رہا تھاکہ راستے میں اسے ایک کاغذ کا ٹکڑا پڑا ملا۔اس نے اسے اٹھایا اور منہ میں ڈال لیا۔بعد مرنے کے وہ کسی کے خواب میں آیا۔اس نے دیکھا کہ وہ شخص تو جنت کے اعلی شان محل میں آرام فرما رہا۔اس شخص نے مرنے والے سے معاملہ کیا کہ تم تو بڑے گنا ہگار تھے۔

آخر کیا معاملہ ہواکہ تم اعلی شان محل میں آگئے۔اس نے جواب دیا۔واقعی میں بہت گناہگار تھا۔مگر ایک دن دریا کنارے چلا جا رہا تھا ۔راستے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا دیکھا۔میں نے اسے اٹھا یا تو اس پر لفظ”اللہ ”لکھا ہوا تھا۔میں نے منہ میں ڈال لیا۔اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے مجھے معاف فر ما دیا۔بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنا پر قادر ہے۔

میرے بھائیو!اب بھی وقت ہے۔مقدس اوراق کی بے حرمتی سے خود بچائیں۔جہاں کہیں بھی کوئی کتاب کا ورق،مقد س الفاظ ملیں۔انہیں پائوں میں نہ رونڈے نہ دریا،ندی نالے کے سپرد کریں۔ندی ،نالے میں بہنے والے اوراق کھیتوں، گندی نالیوں میں چلے جاتے ہیں۔یہ سراسر غلط ہے۔یہ لمحوں کی خطائیں زند گی کا روگ بن جائے گی ۔کہیں ایسا نہ رب رحمان کا قہر ہم پر آن برسے۔

Abdul Majeed Ahmed

Abdul Majeed Ahmed

تحریر: مجیداحمد جائی

(0301-7472712)
majeed.ahmed2011@gmail.com