تحریر : شاہ بانو میر وقت کے ساتھ ساتھ علمی زبان اور ترجیحات بدل جاتی ہیں مگر آج بھی امام تیمیہؒ کتابوں سے مدد لے کر اسلامی نظریات بیان کرنا بڑے سے بڑے عالم کیلیۓ اعزاز ہے٬ ان کی کاوشوں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اخلاص کے ساتھ کام کرنے والوں کا عمل اپنی نسل تک نہیں بلکہ قیامت تک محفوظ رہتا ہے٬ قرآن پاک ان کی سوچ کا مرکز تھا مگر دیگر علوم کا بھی گہرا مطالعہ تھا٬ دوسرے مذاہب کے علماء کے ساتھ ان کے مناظرے ہوتے تو لوگ ان کے بیان دلائل بصیرت اور روانی پر حیران و ششدر رہ جاتے کہ یہ قرآن کے ساتھ دیگر علوم کیسے اتنی گہرائی سے جانتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ جس طرح اللہ نے حضرت داؤد کیلئے لوہا نرم کر رکھا تھا بالکل اسی طرح علم امام ابن تیمیہ کیلئے نرم کیا گیا تھا٬ جہاں سے چاہیں علم لے لیں ٬ ان کے فتاویٰ بہت مشکل اور آسان بھی ہیں مختصر بھی ہیں اور ضخیم بھی کسی بھی سوال کا جواب پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ایک آیت کے بعد دوسری آیت کمال مہارت اور بہترین اسلوب کے ساتھ بیان کرنا صرف انہی کا خاصہ تھا۔
سبحان اللہ وہ آیات وہ علم سب عالم جانتے تھے مگر جس طرح یہ بیان کرتے تھے وہ عام انسان کیلیۓ بھی اور اہل علم کیلیۓ بھی حیران کُن تھا٬ جس طرح یہ کتابوں میں مدلل انداز میں آیت پر آیت لکھتے چلے جاتے ہیں ایسا صرف وہی کر سکتا ہے جو حقیقی طور پے علم رکھتا ہو٬ اللہ پاک نے ان کے لئے علم کو حاضر اور مسخر کر دیا تھا ٬ کسی مُباحثے یا وعظ کی کی تیاری کیلیۓ بہت کچھ یاد کیا جاتا ہے مگر عملی وقت پر بہت دلائل بھول جاتے ہیں۔
ہر مذہب ہر فقہ کے علماء ان کی مجلس میں شریک ہوتے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مناظرہ کیا ہواور یہ ناکام ہوئے ہوں٬ یعنی کسی بات کا جواب نہ دے سکے ہوں گویا علم کا سمندر تھے شرعی اور سنن کے علوم کے جامع عالم تھے ٬ آپﷺ کی اطباع میں بے مثال تھے اتنا ادب رکھتے تھے کہ دوسرے عالم بھی اس کی تائید کرتے کہ آپﷺکے دین کیلئے فکری نظریاتی سعی کرنے والے سچے دین سے محبت کرنے والے عظیم انسان تھے٬ آپ کے پاس علم بھی تھا اور عاجزی بھی ٬ ان کیلیۓ علماء کہتے تھے کہ آپﷺ کی محبت اور آپ کے دین کیلیۓ فتح و نصرت کے جزبے والا ایسا انسان نہیں دیکھا ٬ جب 17 سال کے ہوئے تب آپ نے لکھنا شروع کیا 45 سال تک لکھتے رہے آپ بہت تیز رفتاری سے لکھتے تھے٬ایک نشست میں 60 صفحے لکھتے تو کبھی 50 اسی لئے تو 35 جلدوں پر مشتمل فتاویٰ کی جلد ہے۔
اسمائے صفات پر فتویٰ لکھا ٬ آپ کے لئے حالات سازگار نہیں تھے مگر علم کا ایسا شوق اور علم کا پھیلاؤ ایسا تھا کہ بہت مشکلات میں رہتے ہوئے بھی علمی سفر جاری رکھا ٬ کلمہ حق بلند کئے رکھا٬ ٬ ان مشکلات سے گھبرا کر آپ نے کسی مخالف سے مفاہمت نہیں کی٬ نہ ہی خود کو کمزور کیا ٬ بلکہ آخری وقت تک اپنے نظریات پر قائم رہے ٬ نہ ہی قید و بند کی صعوبتوں سے گھبرا کر اپنے موقف سے پیچھے ہٹے بے شمار لوگوں کی مخالفتیں تھیں اسکے باوجود لکھتے رہےمستقل وعظ و نصیحت کا سلسلہ جاری رکھا٬ ٬آپ نے 67 سال عمر میں آپ نے وفات پائی مگر کام ایسا وسیع و عریض کہ تاریخ میں رقم ہوئے ٬ انہوں نے ایسے اثرات اور علم چھوڑا جو ورثہ ہے ہمارے لئے اتنی صدیوں کے بعد بھی آج بھی ان کے علم کی تحقیق کی وہی اہمیت ہے یہ اللہ سبحان و تعالیٰ کی طرف سے ان کی خدمات کا تحفہ ہے۔
ان کی تحریریں اور کتابیں نہ صرف اعلیٰ پائے کی ہیں بلکہ یہ انسانی ذہنی سوچ کو بدلنے کا ذریعہ ہیں ان کا مطالعہ روح پر گہرے اثرات ڈالتی ہیں ٬ انہوں نے مختلف موضوعات پر لکھا ہے ان کا علم زیادہ تر سوال و جواب فتاویٰ پر مشتمل ہیں تفسیر ٬ اصول تفسیر٬ حدیث ٬اصول حدیث٬ عقائد٬ اخلاق فق ٬ اصول فق فلسفہ ٬ عقائد و نظریات ٬ تصوف مباحثے٬ مختصر٬ طویل ٬ کتابیں 591 تفسیر 102 حدیث 41 فلسفہ 138 فلسفہ منطق 138 خطوط 60 فلسفہ منطق 38 اصول فق 28 عقائد کلام زہد و تصوف 78 دیگرکتب 54 ہیں ٬
اس میں چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی بڑی کتابیں موجود ہیں ٬ ہر موضوع پر سننے والا یہی سمجھتا تھا کہ آپ صرف اسی موضوع کے ماہر ہیں٬ ان کے دور کے عالم ان کے پاس آتے تو ضرور کچھ ایسا نیا لے کر جاتے جو کبھی انہوں نے نہیں سنا تھا٬ یہ تھے ایک تاریخ ساز حامل قرآن کی زندگی کے کچھ رُخ اللہ اکبر ٬ اتنی سختیاں اور ایسا کام پڑھ کر مجھے تو لگا کہ اب تک ہم کیا کرتے رہے ہیں؟ ان کی وفات کا حسین منظر اللہ اکبر سبحان اللہ کہ کیا وہ الفاظ تھے جہاں ان کے سانس کی ڈور تھمی ایک نشانی ہے قدرت والے رب کی دکھایا گیا کہ قرآن اور اسلام منظر کشی یا بیانات نہیں ہیں۔
آخرت”” اٹل”” ہے اور وہاں”” جزا اور سزا”” دونوں برحق قائم ہو کر رہنے والے ہیں٬ اللہ پاک اس تحریر کو اس میں بیان کردہ عالم دین کی زندگی کے واقعات کو ہمارے لئے مشعلِ راہ بنا کر ہم سب کو صراط المستقیم کی طرف موڑ دے ٬ ان کی زندگی کے واقعات قلمبند کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مجھے آڈیو سن کر بہت سی نئی باتیں سمجھ آئیں٬ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہر پڑھنے والے کے ساتھ ہو٬ “” ربّنا تقّبل مِنّا “” اللہ پاک ہم سب کا خاتمہ ایمان پر اور درست تعلیمات پر فرمائے اور ہمارا آخری سانس ایسے ہی قرآن کی قرآت کرتے کرتے ختم ہو جیسے امام ابن تیمیہ کا ہوا٬ (آمین) امام ابن تیمیہ 80 بار قرآن مجید اپنے بھائی کے ساتھ مل کر مکمل کر چکے٬ جب 81 ویں بار دور کر رہے تھے تو درج ذیل آیات پر آپکا انتقال ہوگیا٬ القمر 54 55 بے شک پرہیزگار باغات اور نہروں میں ہوں گے ٬ سچی عزت کی جگہ بڑے ذی اقتدار والے بادشاہ کے قریب۔