تحریر : راحت ملک آج 21 اکتوبر کی سب سے بڑی اور اہم خبر آئی ایس پی آر کا جاری کردہ بیان ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ”پاک فوج نے فاٹا کے علاقے میں موجود انگور اڈہ کی سرحدی چوکی افغانستان کے سپرد کردی ہے بیان میں وضاحت کی گئی ہے کہ چیک پوسٹ کی حوالگی سے پاک افغان برادرانہ تعلقات میں اضافہ ہوگا جبکہ جذبہ خیر سگالی کے تحت موثر بارڈر مینجمنٹ ہوسکے گی ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک افغان سرحد سے متصل تما م مسائل باہمی مشاورت سے حل کئے جائیںگے انگور اڈہ چیک پوسٹ کی تعمیر سرحدی امور مزید بہتر بنانے کے اقدام کا حصہ ہے جبکہ چیک پوسٹ کا کنٹرول افغانستان کے حوالے کرنے سے پاک افغان سرحد پر امن اور استحکام میں بہتری آئیگی ۔خبر کے متن سے اس حقیقت کی تائید و تصدیق ہوتی ہے کہ 21 مئی سے قبل تک انگور اڈہ کی چیک پوسٹ پاکستانی کنٹرول اور حدود میں واقع تھی جسے بعض مقاصد جن کا ذکر بھی خبر کے متن میں ہے اب یہ چیک پوسٹ افغانستان کے کنٹرول اور حدود میں منتقل ہوگئی ہے۔
پاک افغان بارڈر کے تاریخی پس منظر اور تنازعہ کے باوصف حالیہ اقدام یعنی انگور اڈہ چیک پوسٹ کی افغانستان کی حوالگی معمولی قیمت کی ہی سہی دونوں ملکوں میں سرحدی ردوبدل کے زمرے شمار ہونے والا واقعہ ہے لیکن یہ بات متن میں مذکور نہیں کہ مذکورہ سرحدی ردوبدل (جسے پاکستان کی جغرافیائی حدود میں کمی بھی کہا جاسکتا ہے) کا فیصلہ کس نے کیا ہے؟ چنانچہ یہ ابہام اور مضمرات قابل توجہ تشویش ناک ہیں اور ان پر سنجیدہ سیر حاصل اور مفصل بحث کی وسیع گنجائش و قومی حکمت عملی ہے۔خبر کا اندازبتا رہا ہے کہ سرحد میں ردوبدل کا یہ فیصلہ عسکری قیادت کا فیصلہ ہے تاہم اس بات پر اعتبار کرنا خاصہ مشکل ہوگا کہ مذکورہ فیصلہ پنڈی نے کیا ہے اور اسلام آباد کاا س میں کوئی کردار نہیں رہا۔
حسن گمانی کا تقاضہ ہے کہ واقعہ کے بارے ایسا ہی خوش فہم رویہ اپنایا جائے تاکہ ریاستی اداروں کے بیچ تنائو اور بالا دستی کی کشمکش کا تاثر زائل کرنے میں مدد ملے اگر آئی ایس پی آر کے بیان میں بتا دیا جاتا ہے کہ مجاز حکام کی اجازت و رضامندی سے انگور اڈہ کی چیک پوسٹ افغان حکام کے سپرد کی گئی ہے تو بحث کا ایک حصہ از خود ختم ہو جاتا یہاں پائے جانے والے یا پید اکردہ ابہام سے بحث کے نکات میں جو وسعت آئی ہے وہ اثرات دور رس ہونگے چنانچہ بحث پرقدغن یا تحدیدیت کیلئے روایتی الزام تراشی سے بچنا ہی مناسب طرز عمل رہے گا گوکہ اس امکان کی خوش گمانی بھی بذات خود قلیل و محدود ہے۔
ISPR
بالغرض مذکورہ فیصلے تک عملاً عملدرآمد سے قبل مجاز حکام سے اجازت و رضا مندی کا برملا طے ہونے کا قیاس بھی کرلیا جائے تو سوال یہ ہے کہ پارلیمان کے علاوہ وہ کونسا ادارہ ،عہدہ یا فرد ملک میں ہوسکتا ہے جو ملک کی سرحدی کتربونٹ کی توثیق کرے یا منظوری دینے کا قانوناً مجاز ہے؟ جس حد تک معلومات تک ہماری رسائی ہے اب تک پارلیمان کے کسی بھی اجلاس میں اس موضوع پر قطعاً کوئی کارروائی یا لب کشائی کا اشارہ دکھائی نہیں دیتا تو پھر کیا وزیر دفاع نے یا وزیر اعظم نے اس اقدام کی حتمی منظوری دی ہے جسے پارلیمان سے ماورا فیصلہ سمجھنا درست ہوگا؟ڈیورنڈ لائن کے سوال وبحران سے شعوری طورپر قطع نظر کرتے ہوئے میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ انگور اڈہ مسلمہ طورپر پاکستانی جغرافیائی وفود کا حصہ تھاجیسے اب افغان حکام کے حوالے کردیا گیا ہے اس ردوبدل کے نتیجے میں معروضی طورپر چاہے ایک انچ زمین ادھر یا ادھر گئی ہو۔
مسئلہ زمین (سرحد) کی حقدار سے بڑھ کر اپنے کیفتی اثرات کا حامل ہے اوریہی پہلو توجہ کا طالب ہے کیا ہم فرض کرسکتے ہیں کہ اسلام آباد و کابل نے باہمی سفارتی ذرائع سے اس ردوبدل کا فیصلہ کیا ہے نیز یہ ہے کہ مذکورہ سرحدی ردوبدل کے بعد اسلام پاکستان کے نقطہ نظر سے دونوں ممالک میں سرحد کا حتمی یقین ہوگیا ہے؟ اگر اس سوال کا جواب موجود ہے اور مثبت ہے تو پھر اسے عوام کے سامنے لایا جانا اشد ضروری ہے۔
Peace
تاکہ کم بختی کی فضاء پیدا نہ ہونے پائے بصورت دیگر اس حوالے سے پارلیمان میں فوری طورپر مباحثہہونا چاہئے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ملکی جغرافیائی حدود میں ردوبدل چاہے اس کے مقاصد کتنے ہی ارفع اور امن دوست ہوں کے فیصلے کون اور کہاں کررہا ہے اب تک شہری کی حیثیت سے اپنے ملک کی سرحدوں میں کمی سے متعلق میری تشویش فطری اور سوال اٹھانے کا آئینی حق ہے جس کا جواب دینا ریاست کا فرض ہے۔