تحریر : شاہد شکیل اپنے ہوئے پرائے میں مرحوم وحید مراد کے ساتھ کچھ زیادہ ہی زیادتی دکھائی گئی کیونکہ عورتوں کے علاوہ کئی مردوں کے بھی آنسو رواں ہو گئے تھے، عام طور پر پاکستانی اولڈ از گولڈ فلموں میں خواتین کو مظلوم، بے بس اور لاچار دکھایا جاتا تھا بعد ازاں فلمی ٹرینڈ تبدیل ہوا تو مردوں کے کیریکٹر میں بھی ایموشنل سینز کا ا ضافہ ہوا مرحوم محمد علی صاحب تو کئی فلموں میں اپنی فیملی کیلئے روتے روتے اس دنیا سے چلے جاتے تھے یہی حال ندیم اور شاہد حمید کا بھی تھا اور پھر ایک ایسا دور آیا کہ فلم میکرز نے سوچا مظلوم نام کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے ،جب تک پاکستان میں سوفٹ ،گھریلو، لو سٹوری جیسے بے ضرر موضوعات پر فلمیں بنتی رہیں تب تک سنیما بین انجوائے کرتے آئے لیکن جب سے چھری چاقو اور آتشیں اسلحے کو ہائی لائٹ کیا تب سے زیادہ تر فلم بینی کے شوقین نے سنیما کا رخ نہ کرنے میں ہی عافیت سمجھی شاید ہندوستانی فلموں کی وی سی آر پر آمد نے بھی پاکستانی فلم انڈسٹری کی کمر میں گہری ، وزنی اور موٹی کیل ٹھونکی بہرکیف آج نتائج سب کے سامنے ہیں ہو سکتا ہے میں غلط کہہ رہا ہوں۔
کالم کے عنوان کا فلموں سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ فلم زیادہ تر تصوراتی ہوتی ہے جبکہ ایک جیتا جاگتا انسان کسی کہانی یا افسانے کا کردار نہیں ہوتا،موجودہ دور میں ہر انسان اس دوڑ میں ہے کہ کسی بھی حالت میں ترقی کرے اپنے حالات درست کرے کچھ اپنے لئے تو کچھ اپنے بال بچہ کے لئے چھوڑ جائے لیکن کئی انسانوں کو اپنے ذاتی معاملات حل کرنے میں دقت پیش آتی ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو اندرونی طور پر اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ کسی مسئلے کو حل کر سکیں یعنی اچھے خاصے ہٹے کٹے مرد بھی بارڈر لائن میں مبتلا ہوتے ہیںاور یہ گانا گانے میں قطعی نہیں ہچکچاتے کہ اک میں ہی برا ہوں باقی سب لوگ اچھے ہیں۔بارڈر لائن کسی ملک کی کنٹرول لائن یا سرحدی علاقے کا نام نہیں بلکہ طبی زبان میں اسے انسان کی شخصیت یعنی پرسنیلٹی کی کمزوری یا خرابی کہا جاتا ہے ،شخصیت کی خرابی کا رونا شاید ہی کوئی روتا ہوگا کیونکہ دنیا کا کوئی انسان یہ نہیں کہتا میں برا ہوں ،میری شکل و صورت اچھی نہیں ،چال ڈھال میں بے ڈھنگا پن ہے یا میری کون سی عادت بری ہے، لیکن اگر انسان غور کرے ، توجہ سے کوشش اور تلاش کرے کہ اس میں کتنے فیصد خوبیاں ہیں اور خامیوں کا پلڑا کتنا بھاری یا ڈاؤن ہے تو شاید اسے کبھی بارڈر لائن میں مبتلا نہ ہونا پڑے،دنیا بھر میں ایسے انسان بھی ہیں جنہیں اپنی شخصیت پر شک ہوتا ہے اور وہ اکثر یہی سوچ سوچ کر پاگل ہوتے ہیں کہ لوگ میری طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتے آخر مجھ میں ایسی کونسی خرابی ہے اور نتیجہ ہر وقت موڈ خراب رہتا ہے ماتھے پر بل اور ضرورت سے زیادہ لکیروں کا اضافہ ہوتا ہے۔
رویہ انتہائی بد مزاج،دوسروں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں، معمولی سی بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں یا کسی سوال کا معقول جواب نہیں دے پاتے اور بغلیں جھانکتے ہیں یا اوٹ پٹانگ جواب دے کر دوسروں کو اپنے آپ پر ہنسنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور اس بات پر روتے ہیں کہ میں نے ایسا کیا جواب دیا کہ لوگ سیریس نہیں ہیں اور یہ وہ لمحات ہوتے ہیں کہ جب وہ اپنے آپ پر لعنت ملامت کرتے ہیں کیا میں بے وقوف ہوں ،جاہل ہوں ،کیا میری شخصیت اتنی بری ہے کہ لوگ مجھ پر ہنستے ہیں طعنے مارتے ہیں اس قسم کے معاملات اگر کسی انسان کے ساتھ پیش آئیں تو اسے طبی زبان میں بارڈر لائن کہا جاتا ہے۔
Borderline Patient
اندازے کے مطابق دنیا میں ہر پانچواں انسان بارڈر لائن میں مبتلا ہے اور خواتین کی تعداد مردوں سے کئی گنا زیادہ ہے،ماہرین کا کہنا ہے ابھی تک اس بیماری کی مکمل شکایات ،درجہ بندی،تعریف یا خرابی کی علامات سے متفق نہیں تاہم ماضی میں اس قسم کی باتوں یا توہمات میں مبتلا افراد کو پاگل پن کا شکار کہا جاتا تھا یعنی نفسیاتی مریض ہے جبکہ آج کل سائنسی ترقی کے ساتھ اس بیماری کو ماڈرن نام سے یعنی بارڈر لائن کہا جاتا ہے باالفاظ دیگر غیر مستحکم یا جذباتی انسان جو بغیر سوچے سمجھے کسی بھی درست شے کو غلط اور منفی عوامل کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے،کیونکہ کئی افراد مخصوص لمحات میں اپنے احساسات اور جزبات پر کنٹرول نہیں کر سکتے اور بے اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذہنی کشیدگی کا شکار ہو جاتے ہیں ،یہ بات درست ہے کہ ہر انسان زندگی میں ناراضگی کا اظہار کرتا ہے دکھی اور مایوس بھی ہو جاتا ہے ،یا محض کسی دن اسکا موڈ خوشگوار نہیں ہوتا تو ماتھے پر لکیریں ڈالے پھرتا ہے لیکن کچھ دیر بعد سب کچھ بھول جاتا ہے یا حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جبکہ بارڈر لائن میں مبتلا افراد زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں بیلنس برقرار نہیں رکھ پاتے اور ہر شے میں نقص اور کیڑے نکالتے یا کریدتے ہیں اور کچھ حاصل وصول نہ ہونے پر اپنے آپ کو ہی قصور وار کہتے ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری پرسنیلٹی یعنی شخصیت میں خرابی ہے۔جو افراد بارڈر لائن کی مشکلات میں گھرے ہوتے ہیں وہ جذبات سے عاری ہوتے ہیں کسی شے کو محسوس نہیں کرتے کیونکہ ناراضگی،مایوسی اور اداسی کی گھٹا چھائی ہوتی ہے اور ہر وقت غصے یا گھبراہٹ میں مبتلا رہتے ہیں پریشانی اور کشیدگی انکے چہرے سے عیاں ہوتی ہے اور معمولی بات پر آؤٹ آف کنٹرول ہو جاتے ہیںج س کے سبب دوسروں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً مایوسی اس قدر انکے اندر گھر کر جاتی ہے کہ ڈرگس کا استعمال، تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرنا ، الکوحل کا سہارا لینا اور دیگر کئی معاملات میں گھس کر اپنی مایوسی کا حل تلاش کرتے ہیں ایسے افراد کو بھوک نہیں لگتی ، ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اور ہر وقت نشے کی حالت میں رہنا پسند کرتے ہیں حتیٰ کہ خود کشی کرنے کے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔
عام طور پر گھریلو معاملات اور دوستی وغیرہ میں کشیدگی پیدا ہونے سے حالات زیادہ خراب ہو جاتے ہیں غیر یقینی زندگی بسر ہوتی ہے اور بتدریج خود اعتمادی میں کمی آتی ہے جو محبت کو بھی نفرت کے انداز سے دکھائی دیتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے بارڈر لائن میں مبتلا افراد میں دماغی تبدیلی آتی ہے اور وہ تعین نہیں کر پاتے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط کیونکہ ان کے جسمانی نظام جس میں جذبات اور محسوس کرنے کا میکانزم جو دل اور دماغ سے منسلک ہوتا ہے فیصلہ نہیں کر نے دیتا ،اسلئے انسان کو چاہئے کہ دل سے محسوس کرے اور دماغ سے سوچے کہ اصل معاملات کیا ہیں اور کیا اسکی پرسنیلٹی پر اثر انداز ہورہے ہیں اور کتنا گہرا تعلق ہے کیونکہ جذبات اور احساس مختلف الفاظ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں ،انسان کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں ہونا چاہئے ورنہ دوسروں کے نقصان کے ساتھ اپنے لئے بھی بارڈر لائن وبال جان بن سکتی ہے۔