سرحدی دیوار کی تعمیر پر ڈیموکریٹس کی ’ناں‘ پر ٹرمپ چراغ پا ہو گئے

Donald Trump

Donald Trump

واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی صدر اور چوٹی کے ڈیموکریٹ قانون سازوں کے درمیان وائٹ باوس میں اجلاس جاری تھا جب ڈونالڈ ٹرمپ اچانک باہر چلے گئے۔

یہ ناخوشگوار صورتحال اس وقت سامنے آئی جب ڈیموکریٹس نے ایک بار پھر امریکا میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے رقوم مختص کرنے کا مطالبہ ماننے سے انکار کیا۔ دیوار کی تعمیر کا مقصد غیر قانونی تارکین وطن کو ملک میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔

ایک ٹویٹر پیغام میں ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی اور سینیٹ میں ڈیموکریٹ قائد، چَک شومر کے ساتھ اپنی مختصر بات چیت کو ٹرمپ نے ’’وقت کا ضیاع‘‘ قرار دیا۔

صدر نے کہا کہ اُنھوں نے پوچھا اگر وہ 19 روزہ جزوی حکومتی بندش کو ختم کرنے پر اتفاق کریں تو وہ سرحد پر دیوار کی تعمیر یا اسٹیل کی رکاوٹ کی منظوری دیں گے؛ اگر اگلے 30 دِنوں کے دوران سرحدی سکیورٹی پر مذاکرات کیے جاتے ہیں۔ لیکن، جب نینسی نے کہا کہ ’’نہیں‘‘۔ میں کہا ’’خدا حافظ‘‘۔ کوئی راستہ باقی نہیں بچا!۔

جب ٹرمپ نے ناکام ملاقات کے بارے میں ابھی ٹویٹ نہیں بھیجا تھا، وائٹ ہاؤس کے باہر، شومر نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’ایک بار پھر ہم نے غصے کا اظہار‘‘ دیکھا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’وہ باہر نکل گئے اور کہا کہ ہمیں کوئی بات نہیں کرنی‘‘۔

پلوسی نے کہا کہ ’’ہمارے ذہن میں سرحد کی حفاظت کا اس سے بہتر منصوبہ ہے۔ لیکن، اس کا تعلق دیوار تعمیر کرنے سے نہیں ہے‘‘۔

ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو سرحد عبور کرنے سے روکنے کے لیے جدید ترین نگرانی کے نظام کو نافذ کیا جائے، جو زیادہ تر وسط امریکی ملکوں سے غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہوتے ہیں۔

نائب صدر مائیک پینس نے، جو اس ملاقات کے دوران موجود تھے، کہا ہے کہ ’’آج ہم نے ایک بار پھر ڈیموکریٹس کو سنا جو بات چیت پر رضامند نہیں ہیں۔ صدر اپنے مؤقف پر سختی سے قائم ہیں ۔۔۔ تاکہ جنوبی سرحد پر بحرانی صورت حال سے نمٹا جا سکے‘‘۔

حالیہ دنوں کے دوران ٹرمپ اور کانگریس کے قائدین کے درمیان یہ تیسری ملاقات تھی۔

امریکا کے چوٹی کے اہلکاروں کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ ایسے میں ہوا جب امریکی تاریخ کا حکومتی بندش کا دوسرا طویل ترین شٹ ڈاؤن جاری ہے۔ طویل ترین شٹ ڈاؤن تین دِن زیادہ تھا۔ 22 دسمبر سے حکومتی ملازمین کی ایک چوتھائی کام پر نہیں آتی، جس سے حکومت کے کئی ایک ادارے بند پڑے ہیں، جب کہ وفاقی سول ملازمین جن کی تعداد 800000 ہے ’فرلو‘ پر ہیں یا پھر بغیر اجرت کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔