لندن (اصل میڈیا ڈیسک) برطانیہ میں جوں جوں برگزیٹ کی حکومتی ڈیڈلائن قریب آ رہی ہے ملک میں سیاسی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔
وزیراعظم بورس جانسن کی طرف سے پانچ ہفتوں کے لیے پارلیمان کی کاروائی معطل کیے جانے کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ فیصلے کے خلاف عوامی پٹیشن پر چوبیس گھنٹوں کے اندر دس لاکھ لوگوں نے دستخط کیے اور بدھ کی شب لندن سمیت کئی شہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور مارچ کیا۔ مظاہرین نے حکومتی فیصلے کو برطانیہ کی جمہوری روایات کے منافی قرار دیا ہے۔
برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ماورائے آئین کوئی اقدام نہیں کیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ پارلیمان کا پچھلا سیشن چار سو سال میں برطانوی پارلیمان کا لمبا ترین سیشن تھا، اس لیے حکومت اسے معطل کرکے نیا سیشن شروع کرنے میں حق بجانب ہے۔
لیکن برطانوی حزب اختلاف کا الزام ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب برطانیہ میں ہر طرف بریگزٹ کے مسئلے پر تشویش پائی جاتی ہے، حکومتی فیصلہ پارلیمان کو اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکنے کی کوشش ہے۔ اُدھر برطانیہ میں بریگزٹ مخالف مہم کی سرکردہ رہنما جینا ملِر نے پارلیمان کی معطلی سے متعلق وزیراعظم بورس جانسن کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کردیا ہے۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے یورپی یونین کو اکتیس اکتوبر تک کا الٹیمیٹم دے رکھا ہے کہ اگر برطانیہ کے انخلا پر فریقین کے درمیان افہام و تفہیم سے اختلافات طے نہیں پاتے تو اُن کا ملک ہر صورت میں بغیر ڈیل کے یورپی یونین سے نکل جائے گا۔
برطانیہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد وزیراعظم کے اس موقف کی شدید مخالفت کر رہی ہے، جس میں حکمراں کنزرویٹیو پارٹی کے بعض سینیئر لوگ بھی شامل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یورپی یونین سے بغیر معاملات طے کیے نکلنا برطانیہ کو معاشی اور سیاسی طور پر بھاری پڑے گا۔ خدشات ہیں کہ اس طرح کے بریگزٹ سے یورپ کے ساتھ دہائیوں سے چلے آ رہے کاروباری معاملات یکدم ٹوٹ جائیں گے جس سے افراتفری پھیل سکتی ہے۔
لیکن وزیراعظم بورس جانسن کی حکومت کا اصرار ہے کہ برطانوی ووٹر تین برس پہلے بریگزٹ پر اپنا فیصلہ دے چکے ہیں اور اب اسُ پر عمل درآمد ہو کر رہے گا۔ برطانوی حکومت کے وزیر جیکب ریس موگ نے کہا ہے کہ بریگزٹ مخالف حلقے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے پاس حکومت کو روکنے کے اب دو ہی راستے ہیں، ”وہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئیں یا پھر قانون بدل دیں۔‘‘ لیکن اُن کے بقول اپوزیشن کے پاس ان دونوں میں سے کوئی بھی راستہ لینے کی نہ ہمت ہے اور نہ حمایت۔
حکومت کے موقف کے خلاف برطانیہ میں آنے والے دنوں میں مزید مظاہروں کی تیاریاں جاری ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر بریگزٹ پر بے چینی زیادہ بڑھ گئی اور حکومت نے مزید کوئی غیرمعمولی اقدامات کیے تو حالات نئے انتخابات یا پھر کسی آئینی بحران کی طرف جا سکتے ہیں۔