بوسنیا میں پھر قوم پرست اور اشتعال انگیزی کے خطرات

Bosnia

Bosnia

بوسنیا (اصل میڈیا ڈیسک) مغربی بلقان کی ریاستوں پر قوم پرستی کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ سربیائی قوم پرستوں کی طرف سے اس کثیرالنسل خطے میں تنازعات کو پھر ہوا دی جا رہی ہے۔ اس صورتحال میں یورپی یونین کی سرد مہری پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔

بوسنیا اور ہرزیگووینا دو خود مختار ریاستیں ہیں۔ ایک کو فیڈریشن آف بوسنیا اور دوسرے کو سرپسکا ریپبلک کہا جاتا ہے۔ مغربی بلقان کے اس خطے میں علیحدگی پسند رجحانات اور کوششوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں حال ہی میں بوسنیائی سرب ریپبلک، ریپبلکا سرپسکا کی قیادت نے جمہوریہ سرپسکا کا قومی دن منایا۔ اس سال جمہوریہ سرپسکا کے اعلان کے تاریخی واقعے کے 30 برس مکمل ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ بوسنیا کی جنگ سے ایک روز قبل پیش آیا تھا۔

اس موقع پر بوسنیا اور ہرزیگووینا کی مشترکہ فیڈریشن کی ریاستی صدارت کے رکن میلوراڈ ڈوڈک کے بیانات قابل تشویش تھے۔ بوسنیائی سرب سیاستدان میلوراڈ کی پارٹی کا نام ”الائنس آف انڈیپینڈنٹ سوشل ڈیموکریٹس‘‘ AISD ہے۔ انہوں نے 9 جنوری کو جمہوریہ سرپسکا کے قومی دن کے موقع پر اپنے بیان میں کہا،”ہر قومی تحریک کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے، اپنی ایک ریاست قائم کرنا اور ہماری قومی تحریک بھی بالکل یہی چاہتی ہے۔ جمہوریہ سرپسکا میں رہنے والے کسی بھی باشندے کو اس بارے میں شکوک و شبہات نہیں رکھنے چاہییں کہ آیا یہ ممکن ہے؟ یقیناً یہ ممکن ہے۔‘‘

بوسنیا اور ہرزیگووینا کی جمہوریہ کا نقشہ
قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ہونے والا ملٹری مارچ محض پریڈ نہیں تھی۔ اسے بوسنیائی ریاست کے خلاف اعلان جنگ اور مغربی بلقان میں امن کے منافی عمل خیال کیا گیا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے سرب لیڈر ڈوڈک ملک کے اس حصے کی علیحدگی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس علاقے پر ان کا مکمل کنٹرول ہے۔ برسوں سے وہ 9 جنوری کو ‘ریپبلکا سرپسکا ڈے‘ مناتے رہے ہیں۔ حالانکہ بوسنیا کی آئینی عدالت نے اس پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ یہ تاریخ بوسنیا کی جنگ سے پہلے سال 1992ء میں ریپبلکا سرپسکا کے اعلان کی نشان دہی کرتی ہے۔ ریپبلکا سرپسکا کے قیام کے اعلان کے تاریخی واقعے کے فوراً بعد ہی سے غیر سربوں کے خلاف مجرمانہ سلوک، ان کی بےدخلی، اجتماعی قتل، اجتماعی عصمت دری جیسے جرائم کا بازار گرم ہو گیا تھا۔ یہ حالات 1995ء جولائی کے ماہ میں سربرینیتسا میں نسل کُشی پر منتج ہوا۔

دیگر علاقائی لیڈروں کا رویہ
ہنگری کے وزیر اعظم اور وکٹر اوربان نے حال ہی میں ریپبلکا سریپسکا ) آر ایس( کے دارالحکومت بنیا لوکا میں علیحدگی پسند سرب لیڈر ڈوڈک سے ملاقات کی اور آر ایس کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ وکٹر اوربان اور سلووینیا کے وزیر اعظم یانس ژانشا کو ایک ایسے دھماکہ خیز “Non-Papers” کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے جس میں سابق یوگو سلاویہ کی ریاستوں کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کی بات کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں یہ دونوں سیاستدان سربیائی قوم پرستی سے عبارت ‘اسلامو فوبک‘ یا مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی پالیسیوں کے حامی ہیں۔

میلوراڈ ڈوڈک کئی مہینوں سے اپنی بیانات میں ”سربیائی دنیا‘‘ کے اتحاد کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اس اصطلاح کا مطلب ایک وسیع تر سرب نواز پالیسی کے ایک نئے تصور کو پیش کرنا ہے۔ اسی سیاست کا نتیجہ 1990ء میں شروع ہونے والی جنگ تھی، جس میں قریب ایک لاکھ بیس ہزار انسانوں کی جانیں گئیں۔ انسانوں کو در بدر کرنے اور ہزاروں کو نیست و نابود کرنے کی اس سیاست ہی کا نتیجہ جمہوریہ سرپسکا کا قیام ہے۔ بوسنیا کے دارالحکومت میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

ڈوڈک کی حالیہ ‘نفرت انگیز‘ تقریر رائیگاں نہیں گئی۔ رواں برس کے آغاز پر سات جنوری کو آرتھوڈوکس مسیحیوں کی کرسمس کی تقریبات کے موقع پر بوسنیا اور سربیا کے کئی شہروں میں قوم پرستوں نے نفرت انگیز گیت گائے۔ جن کے الفاظ کچھ اس طرح کے تھے،” آج کرسمس ہے، مساجد کو گولی مارو۔‘‘

اس وقت اس خطے میں وہ نسلی اقلیتیں، جو جنگ کے دوران سربیا کے زیر قبضہ بوسنیا سے فرار ہوئی تھیں اور ‘ڈے ٹن‘ معاہدے کے تحت بعد میں اپنے علاقوں کی طرف لوٹی تھیں، تحفظات کا شکار ہیں۔

خاموش تماشائی بنیں یا رد عمل ظاہر کریں؟
موجودہ حالات میں بوسنیا کی آبادی میں مزید بے چینی اور اشتعال کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔ دس جنوری کو یعنی جمہوریہ سرپسکا کے قومی دن کی پریڈ کے ایک روز بعد بنیا لوکا میں متعلقہ شہری سرائیوو میں طے پانے والے ڈے ٹن امن معاہدے کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار اعلیٰ عہدیدار اور نمائندے کے دفتر کے سامنے اکٹھا ہوئے۔ مظاہرین نے بلند آواز میں پابندیوں کا مطالبہ کیا۔

یورپ کے کئی دیگر شہروں میں بھی ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر بوسنیا میں اشتعال انگیزی پھیلانے والوں کے خلاف مظاہرے کیے۔