بوسنیائی مسلمہ کی زمین پر بنا چرچ گرایا جائے، یورپی عدالت

Bosnian Muslim Woman

Bosnian Muslim Woman

بوسنیا (اصل میڈیا ڈیسک) یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے اپنے ایک فیصلے میں ایک چرچ کو منہدم کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ یہ مقدمہ ایک بوسنیائی مسلم خاتون کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔ یہ کلیسا اسی خاتون کی ملکیت زمین پر بنایا گیا تھا۔

یورپی عدالت برائے انسانی حقوق (ای سی ایچ آر) نے بوسنیائی حکام سے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سربیا کی ایک مسلمان شہری کی جائیداد پر بننے آرتھوڈکس کلیسا کو وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ یہ بوسنیائی خاتون شہری 1995ء میں سربرینتسا میں ہونے والے قتل عام میں بچ جانے والے مسلم شہریوں میں سے ایک ہیں۔

یورپی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حکام نے درخواست گزار خاتون کے جائیداد کے حق کی اس طر ح سے خلاف ورزی کی ہے کہ اسے اس کی ملکیت واپس تو کر دی گئی مگر ساتھ ہی چرچ کی عمارت کو وہاں قائم رکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔

یہ درخواست ایک بوسنیائی مسلمان خاتون فاتا اورلووچ کے خاندان کے ایسے چودہ افراد کی جانب سے جمع کرائی گئی تھی، جو 1992ء سے 1995ء تک جاری رہنے والی بوسنیائی جنگ کے دوران سربرینتسا میں مسلمانوں کے قتل عام کے دوران اپنا گھر بار چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔

بہتر سالہ فاتا اورلووچ نے بوسنیئن نیوز کو بتایا کہ وہ اس عدالتی فیصلے پر خوش تو ہیں لیکن فخر محسوس نہیں کر رہیں،”مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہاں کوئی کلیسا بنا ہوا ہے۔ یہ بھی مسجد کی طرح خدا کا گھر ہی ہے۔ میں نے عدالت سے صرف اس وجہ سے رجوع کیا کہ یہ چرچ میری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ زمین میرا حصہ ہے۔‘‘

اورلووچ نے مزید کہا کہ یہ وہ وقت تھا کہ جب وہ جنگ کے بعد اپنے گاؤں واپس لوٹیں، تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے شوہر کو دیگر افراد کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا، ”میری خواہش ہے کہ آج میرا شوہر یہاں میرے ساتھ ہوتا اور دیکھتا کہ انصاف ملنے میں وقت تو لگ سکتا ہے لیکن اسے حاصل کرنا ناممکن بھی نہیں ہے۔‘‘

فاتا اورلووچ کے خاندان کے بیس سے زائد افراد ان تقریباً آٹھ ہزار مسلمانوں میں شامل تھے، جنہیں 1995ء میں بوسی سرب دستوں نے سربرینتسا میں قتل کر دیا تھا۔ یہ افراد ایک ایسی جگہ پر موجود تھے، جسے اقوام متحدہ نے محفوظ تو قرار دے رکھا تھا مگر وہاں حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔

1995ء میں ہی امریکا کے ثالثی میں کیے جانے والے ایک امن معاہدے کی رو سے سربرینتسا کو سربیا کے زیر انتظام جمہوریہ سرپسکا کے حصے کے طور پر ہی رہنے دیا گیا تھا۔ جمہوریہ سرپسکا موجودہ بوسنیائی ریاست کے دو اہم خود مختار علاقوں میں سے ایک ہے۔