تحریر : محمد امجد خان پاک چین دوستی کے قصیدے پڑھتے ہوئے آج کئی یوم گزر جانے کے بعد اب یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے پاکستان خود چین بن گیا ہو یعنی کہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہو ،انصاف عام ہو گیا ہو،کرپشن کنگ قتل کر دیئے گئے ہوں،سڑکیں نیٹ اینڈ کلین ہو گئی ہوں ،لوڈ شیڈنگ مکمل ختم ہو گئی ہو،جگہ جگہ انڈسٹریز لگ گئی ہوںجس کے نتیجہ میں بے روزگاری کا مکمل خاتمہ ہو گیا اور جن لوگوں کو فیکٹریز میں ملازمت نہ مِلی ہو انہوں نے گھریلو سطح پر چھوٹی چھوٹی صنعتیں لگا کر ذریعہ معاش تلاش کر لیا ہوجس کے نتیجہ میں اب سے کچھ ہی دیر بعدپاکستان کے دُنیا کے نقشہ پر چین کے بعد دوسری سُپر پاور بن جانے کا اعلان ہونے والا ہو اور ہونا بھی ایسا ہی چاہئے کیوں کہ چھیالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کوئی معمولی بات نہیں، مگرایسا ہونے والا نہیں،کیوں نہیں ہونے والا اس بات کو ایک بار ہم یہیں روک کر جواب سمجھنے میں آسانی کیلئے آج سے بہت پیچھے چلتے ہیں ،جب بادشاہتوں کا دور تھا،
جب بادشاہتوں کا دور تھا تب جو شخص جس علاقے کا مالی دفائی و جنگی لحاظ سے جتنا طاقتور ہوتا اُس کی اُتنی ہی وسیع بادشاہت ہوتی تھی ،اور لوگوں کے مختلف مسئلے مسائلوں کے حل و سزا جزا کیلئے بادشاہ خوددربار لگا یا کرتے اور فیصلے بھی خود ہی کیا کرتے تھے ،ایسے میں ایک دِن وقت کے بادشاہ کا دربار لگا ہوا تھا کہ اچانک ایک فقیر آگیا اور سیکیورٹی پر معمور لوگوں نے اِسے روک کر جب بھیک دینا چاہی تو فقیر نے لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں تُم سے نہیں وقت کے اُس بادشاہ سے بھیک لینا چاہتا ہوں جو اِس پوری کی پوری سلطنت پر قابض و حاکم ہے ،جس کے حکم کے بغیر تُم نہ سو سکتے ہو نہ بیٹھ سکتے ہوںنہ کھا سکتے ہو نہ پی سکتے ہوجو چاہے تو تُجھے بھوک اور پیاس سے مار ڈالے اور چاہے تو مالا مال کر دے ،
جس پرسیکیورٹی اہلکاروں نہ یہ سوچتے ہوئے کہ شاید وہ بادشاہ سے بھیک میں کوئی ایسی چیز لینا چاہتا ہو جو ہم نہیں دے سکتے مشیرِ بادشاہت کے نوٹس میں دیا جس پر مشیر نے اِسے اپنے پاس بلاتے ہوئے کافی ساریا اشرفیاں اِس کے کشکول میں ڈال دیں مگر فقیر نے یہ بھی وہیں ڈھیر کرتے ہوئے جب بادشاہ سے بھیک لینے کی ضد نہ چھوڑی توپوچھا گیا کہ آخر تُم ایسا کیا لینا چاہتے ہوجو ہم نہیں دے سکتے ،جواب مِلا کہ میں جو بھی لینا چوہوں مگر لینا اُس سے چاہتا ہوں جسے کے پاس کِسی چیز کی بھی کوئی کمی نہی اور جس کی اِس پوری دُنیا پر حاکمیت ہے یہ سن کرمشیر نے معاملہ بادشاہ کے نوٹس میں دیا اور بادشاہ نے فقیر کو اپنے پاس بلاتے ہوئے پوچھا کہ ہاں بول کیا لینا چاہتا ہے ،مانگ جو مانگنا چاہتا ہے ،آج میں تُجھے وہ سب کچھ دوں گا جو جو تو مانگے گا جس پر فقیر نے کہا کہ میں اور تو کچھ نہیں لینا چاہتا
Beggar Bowl
سوائے اِس کشکول کے آپ بس یہ کشکول بھر دیں اگر بھر سکتے ہیں تو ؟بادشاہ مسکرایا اور پاس موجود اشرفیاں کشکول میں ڈالیں ،کشکول اِن سے نہ بھر سکا تو حکم دیا گیا اخزانے سے اور اشرفیاں لائی جائیں ،حکم پر سونے چاندی کی اشرفیوںسے بھرا ہوا بورا لاکر منہ کھولا دیا گیا بادشاہ نے دونوں ہاتھوں سے کشکول میں ڈالنا شروع کردیا ،بورا ختم ہوگیا،مگر کشکول نہ بھر سکا تو اور لانے کا حکم دے دیا گیا ،اور بورا آگیا ،ڈال دیا گیا،مگرکشکول نہ بھر سکا ،تو حکم دیا گیا کہ اور لایا جائے، جس پرجواب مِلاکہ بادشاہ سلامت اشرفیا ں ختم ہوگئی ہیں ،یہ سُن کر بادشاہ نے بڑے غصے کے ساتھ کہا کہ جو موجود ہے لایا جائے ،یہ سُنتے ہی ہیرے جواہرات لانے اور کشکول میں ڈالنے شروع کر دیئے گئے،
مگر کشکول جون کا تُوںکبھی آدھا ہو جائے کبھی پونا ہو جائے ،جیسے جیسے اِسے بھرنے کی کوششیں تیز ہوتی گئی اِس کا حجم (یعنی کہ خلا) بڑھتا گیا ،آخر جب پوری کی پوری بادشاہت کا روپیہ پیسہ ہیرے جواہرات ،اناج تک اِ س میں ڈل گیا اور باقی کچھ نہ بچا تو بادشاہ نے اپناتاج محل بھی اِس میں ڈال دیامگر کشکول جب پھِر بھی نہ بھر سکا تو غصے سے بادشاہ کی رنگت سرخ اوراِس نے اِسے زور سے تخت سے نیچے پھینک کر فقیر کی طرف دیکھا تو فقیر نظرون سے اوجھل پاکر اُس کی تلاش میں چل دیاآخر جب تھک ہار گیا تو فقیر بھی مِل گیا
جِسے دیکھتے ہی بادشاہ اِس طرح رونے لگا جیسے کوئی چیز گم ہو جانے پر بچہ ماں کو دیکھ کر روتا ،ایسے میںفقیر نے حوصلہ دیا تو بادشاہ ،آہ بھر کر کہاکہ تُم جو چاہوگے میں کروںگا یہاں تک کہ میں عمر بھر آپ کا غلام بھی بن کر رینے کو تیار ہوں مگر مجھے صرف اِتنا بتا دو کہ وہ کشکول جس میں پوری دُنیا ڈال دی گئی مگر بھر نہ سکا وہ کِس چیز کا بنا ہوا تھا،یہ سُن کر فقیر نے جواب دیا کہ یہ خواہش (یعنی کہ حوس )کا بنا ہوا تھا جو کبھی ختم نہیں ہوتی ،اور اگر ختم ہوجائے تو انسان فرشتوں سے بھی افضل درجہ پا لیتا ہے،یہ سُن کر بادشاہ دوڑا دوڑاواپس آیا اور سوا ایک وقت کی روٹی کے سب کچھ غریبوں مسکینوں میں خیرات کردیا،
Wishes
کیونکہ ثابت ہو چکا تھاکہ خواہش کا کشکول کبھی نہیں بھرتا ،اور جو قومیںاس حقیقت کو سمجھتی ہیں وہ اِسے بھرنے کی بجائے توڑنے کیلئے تعلیم حاصل کرتی ہیں ، اب ہم واپس بے روزگاری کی طرف چلتے ہیں ،بے روزگاری ہم ذریعہ آمدن نا ہونے کو کہتے ہیں،اور ذریعہ آمدن ہمیں اِس لئے میسر نہیں ہوتا کہ ہم تعلیم کشکول مذکورتوڑنے کی بجائے بھرنے کیلئے حاصل کرتے ہیں،یعنی کہ ہم ایم اے جرنلزم شعبہ صحافت کو سمجھنے کیلئے نہیں بلکہ بدنامِ زمانہ بلیک میلر بننے کیلئے کرتے ہیں،
اگر نہیں بن پاتے تو اِس کی جگہ سائیکلوں کو پنکچر لگا کرروزی کمانے کی بجائے بندوق کی نوک پر رات ورات امیر ہونے کے چکر میں نکل پڑتے ہیں،گویاجیل کی سلاخوں پیچھے پہنچ جاتے ہیں یا پولیس مقابلے میں پار ہو جاتے ہیں اور ورثاء سڑکوں پر نعشیں رکھ کر احتجاج کرتے پھِرتے ہیں،جبکہ چین میں ایسا نہیں وہ کشکول توڑنے کیلئے تعلیم حاصل کرتے ہیںبھرنے کیلئے نہیں،وہ دُنیا کو سمجھنے کیلئے تعلیم حاصل کرتے ہیں ڈگریاں اکٹھی کرنے کیلئے نہیں،
سیاست میں لوگ مال سمیٹنے کیلئے نہیں جھوٹی ایف آئی آرز درج کروانے کیلئے بھی نہیں بلکہ عوامی خدمت کیلئے آتے ہیں لہذا ہمیں بھی چین بننے کیلئے یہ کشکول توڑنا ہوگا اور خدمت کی سیاست کرنا ہوگی ورنہ ہم پاکستان کو چین کبھی نہیں بنا سکیں گے۔