لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) وقار یونس نے بولنگ کوچ کیلیے درخواست دینے کی تصدیق کر دی جبکہ ان کے مطابق وہ ہیڈ کوچ کے امیدوار بھی بن سکتے ہیں البتہ اس حوالے سے ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کے پروگرام ’’کرکٹ کارنر‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وقار یونس نے کہا کہ میں نے بولنگ کوچ کیلیے درخواست جمع کرا دی ہے، ابھی آخری تاریخ میں1،2 دن باقی ہیں شاید میں ہیڈ کوچ کیلیے بھی اپلائی کر دوں، البتہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں ابھی ذہنی طور پر اس کیلیے تیار نہیں ہوں، کوشش کروں گا کہ بولنگ کے شعبے میں پاکستان کی مدد کر سکوں۔
انھوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ میں کسی کے تحت کام نہیں کر سکتا، میں نے بہت سے کوچز کے ساتھ رہ کر ہی کوچنگ سیکھی تھی،آج کل یہ کوئی بات نہیں کہ کون کتنا بڑا پلیئر ہے،آپ نے اسٹیو وا کو پلیئرز کی رہنمائی کرتے دیکھا ہوگا، اسی طرح رکی پونٹنگ نے بھی جسٹن لینگر کے تحت کام کیا، یہ کوئی بات نہیں کہ ہیڈ کوچ کون ہے، اصل چیز یہ ہے کہ آپ کیسے کام کرتے ہیں، مجھے کوچنگ کا تجربہ اور میں اپنے دائرہ کار سے واقف ہوں، کون کوچ آئے گا یا میرے رتبے پر اس سے کیا فرق پڑے گا میں اس حوالے سے نہیں سوچ رہا، ہم سب یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ آگے جائے اور ٹیم کو نمبر ون بنا سکیں، میں نے اسی لیے درخواست دی، میں ٹیم کی بہت مددکر سکتا ہوں۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ مصباح الحق کے ساتھ کام کے بارے میں وقت سے پہلے بات کرنا درست نہیں مگر وہ بہترین شخصیت کے مالک ہیں، انھوں نے پاکستان کو نمبر ون ٹیسٹ ٹیم بنایا، ہم دونوں نے بطور کوچ اور کپتان ساتھ کام بھی کیا ہے، میں نہیں جانتا کہ انھیں یہ جاب ملے گی یا نہیں، یا وہ کوچنگ کرنا چاہتے ہیں،البتہ مصباح اچھے لیڈر رہے، مجھے نہیں پتا کہ وہ بطور ہیڈکوچ کیسے کام کرتے ہیں مگرلیڈر سیکھ لیتے ہیں، اگر انھیں ہیڈکوچ بنایا گیا تو تھوڑا سا وقت لگے گا اور وہ سیکھ جائیں گے۔
ماضی میں 2 بار ہیڈ کوچ کی پوسٹ چھوڑنے والے وقار یونس نے اس تاثر سے اتفاق نہیں کیا کہ اس بار ہچکچاہٹ کی وجہ ماضی کے تجربات ہیں،انھوں نے کہا کہ اب مختلف کرکٹ بورڈ اورنئے لوگ ہیں،اچھی ٹیم نظر آ رہی ہے، ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے میں نے اب ہیڈ کوچ کیلیے درخواست نہیں دی، جب میں نے پہلی بار کوچنگ چھوڑی تو فیملی وجوہات تھیں،میں پاکستان اور اہل خانہ آسٹریلیا میں مقیم تھے، اسی وجہ سے مجھے مسائل ہوئے اور کام چھوڑنا پڑا۔
وقار یونس نے کہا کہ سب یہ جانتے ہیں کہ جب بھی ورلڈکپ میں ٹیم کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو اسکروٹنی ہوتی ہے، اب بھی ایسا ہوا، میں نے بھی دوسری بار اسی وجہ سے کوچنگ چھوڑی،ماضی کی تلخ باتیں اب ذہن میں نہیں آتیں،لوگ بدلتے رہتے ہیں،اگر لوگوں نے مجھ سے سیکھا تو میں نے بھی ان سے کچھ سیکھا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہم آگے چلنے اور بہتر انسان و پروفیشنل بننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بہتری کی جانب سفر جاری رہے، جو کچھ ماضی میں ہوا اس کا نیک نیتی سے میں نے اپنی رپورٹ میں ذکر کر دیا تھا، اب وہ بہت پرانی بات ہو گئی اور میں اس کا دوبارہ تذکرہ نہیں کرنا چاہتا، میری بہت سی تجاویز پر عمل کیا گیا جس کا پاکستان کرکٹ کو خاصا فائدہ بھی ہوا۔
وقار یونس نے کہا ہے کہ سرفراز احمد نے گذشتہ 2،3 سال میں پاکستان کو آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی اور چند بڑے میچز بھی جتوائے لیکن یقیناً جب آپ ہاریں تو اسکروٹنی ہوتی ہے اور سوال پوچھے جاتے ہیں، سرفراز کو اوپر کے نمبرز پر بیٹنگ کرنا چاہیے، بطور کپتان انھوں نے عمدگی سے فرائض انجام دیے ہیں۔
وقار یونس کا کہنا ہے کہ بولنگ کوچ کو بائیومکینک کی بھی سمجھ ہونی چاہیے تاکہ بولرز کے ایکشن پر بھی کام کر سکے، انھوں نے کہا کہ نوجوان کرکٹرز کی کوچنگ بہت ضروری ہے، ایک اچھا کوچ ہونا چاہیے جسے کرکٹ، بولنگ اور بائیومکینک کی سمجھ ہو، کسی کے ایکشن میں خرابی ہو تو وہ اسے درست کر سکے،نوجوان بولرز کو انسپائر کرنا چاہیے تاکہ وہ ٹیم کو آگے لے جا سکیں مجھے اگر موقع ملا تویہی کروں گا۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس وائٹ اور ریڈ بال دونوں کے باصلاحیت بولرز موجود ہیں، شاہین شاہد آفریدی کے آنے سے مثبت فرق پڑا، مجھے فہیم اشرف کی ورلڈکپ اسکواڈ میں عدم شمولیت کا بڑا دکھ ہوا تھا،امید ہے وہ واپس آئیں گے، فہیم بہت اچھا آل راؤنڈ اور بیٹنگ بھی اچھی کرتا ہے، اسی طرح شاداب خان اچھا بولر ہے، ٹیسٹ کرکٹ میں محمد عباس موجود ہیں، مجھے نہیں پتا کہ راحت علی کی ان دنوں کیسی کارکردگی ہے، دیکھنا پڑے گا کہ کون کتنی اچھی بولنگ کررہا ہے،اسی کے ساتھ تجربے کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا،ہمیں نوجوان بولرزکو بھی دیکھنا ہوگا، انڈر19کا ٹیلنٹ دیکھیں گے، مجھے نہیں پتا کہ وہاں کون سے پلیئرز آ رہے ہیں لیکن ہمارے پاس ٹیلنٹ یقیناً بہت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ورلڈکپ میں پاکستانی بولرز نے اچھی بولنگ کی، عماد وسیم اور شاداب کا کھیل بہتر رہا، مگر بطورگروپ بولرزکچھ اہم میچز میں پرفارم نہیں کر سکے، فارم تھوڑی تاخیر سے آئی،آسٹریلیا کیخلاف میچ جیتنا چاہیے تھا مگر ہماری بولنگ خراب رہی، پریشر ختم ہوا تو کارکردگی بہتر ہونا شروع ہو گئی، میگا ایونٹ سے پہلے انگلینڈ میں کھیلنے سے اچھی تیاری کا موقع ملا تھا لیکن بدقسمتی سے سلیکشن سمیت کچھ مسائل ہوئے۔
سابق کوچ نے کہا کہ کون ٹیم میں ہو گا کون نہیں آخری وقت تک پلیئرز کو کچھ پتا نہ تھا، اس سے اعتماد کم ہوا، اسی لیے ابتدائی چند میچز میں کارکردگی اچھی نہ رہی، اعتماد آیا تو بہتر بولنگ شروع کی، بیٹنگ بھی اچھی رہی، بابر اعظم ورلڈکلاس بیٹسمین اور حارث سہیل بہت اچھے کرکٹر ہیں،امام الحق کی کارکردگی بھی اچھی رہی،ٹیلنٹ تو پاکستان کے پاس ہمیشہ ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس ورلڈکپ میں اس کا استعمال نہیں کر سکے۔
وقار یوانس نے فاسٹ بولرز کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے کے ٹرینڈ پر اظہار خیال سے گریز کیا، محمد عامر کی ٹیسٹ سے ریٹائرمنٹ کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میں ابھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہنا چاہتا، میں نے ابھی جاب کیلیے صرف درخواست دی جو کہ میرا حق ہے،جب ذمہ داری ملے گی توریٹائرمنٹ جیسے موضوع پر بات کروں گا۔
وقار یونس نے کہا کہ نیا ڈومیسٹک سسٹم اچھا اور میں اس سے بہت متاثر ہوں، میں نے تین سال پہلے اپنی رپورٹ میں بھی لکھا تھا کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ٹیمیں اور میچز کم کرنا چاہئیں، زیادہ ٹیموں سے کوالٹی کم ہو رہی تھی،اب 6ٹیمیں ریجنل بنیادوں پر کھیلیں گی، امید ہے کراؤڈ بھی آئے گا،کم میچز ہوں گے تو ٹیلی کاسٹ بھی ہوں گے، پاکستان کو اس کا فائدہ ہو گا، ٹیم بہتر اور اچھے کرکٹرز تیار ہو سکیں گے جن پر نظر رکھی جا سکے گی۔
انھوں نے کہا کہ اچھے کوچز، ٹرینرز اور نیوٹریشنسٹ بہت ضروری ہیں، پاکستان ٹیم کے ساتھ چھوٹے لیول پر بھی اچھے کوچز ہونے چاہیے، پاکستان کو بڑی ٹیموں سے جیتنے کیلیے ان کے جیسی فٹنس پانا ہوگی، ٹیلنٹ میں ہم تمام ٹیموں سے بہت بہتر ہیں۔
وقار یونس نے محمد حسنین کے روشن مستقبل کی نوید سنا دی، انھوں نے کہا کہ وہ باصلاحیت نوجوان ہیں، ورلڈکپ بہت بڑا ایونٹ اور 9میچز تھے، میں توقع کر رہا تھا کہ حسنین کو1،2مواقع تو ملیں گے مگر پاکستانی ٹیم نے یہ غلطی کر دی اور اسے نہیں آزمایا، پیسرکو کسی نہ کسی میچ میں توکھلا کر دیکھنا چاہیے تھا، وہ اچھا اور فٹ بولر ہے، تجربے سے کھیل مزید بہتر ہو جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ حسنین کے ساتھ رن اپ کا مسئلہ اوراس پر کام کیا جا سکتا ہے،18،19 سال میں مجھے بھی مسائل تھے، عمران بھائی نے میرا رن اپ ٹھیک کرایا تھا، چھوٹی چھوٹی چیزیں درست کر لیں تو حسنین بھی کوالٹی فاسٹ بولر بن جائے گا۔
وقار یونس نے وسیم اکرم سے رقابت کے سوال پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا، انھوں نے کہا کہ وقاریونس کو وقار یونس وسیم اکرم نے ہی بنایا، وقت بدل جاتا ہے، آپ آگے بڑھتے اور سیکھتے ہیں،کم عمری میں نادانی کی وجہ سے غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں،اب یہ ہمارا کام ہے کہ نوجوانوں کو بتائیں کہ ہم نے یہ غلطیاں کیں تم نہ کرنا، جو ہم نے اچھا کیا وہ دیکھو۔
انھوں نے کہا کہ وسیم بھائی کے ساتھ ہمیشہ سے پیار تھا، ان کی وجہ سے ہی وقار یونس بنا کیونکہ جب وہ دوسرے اینڈ سے بولنگ کرتے تھے تو ایک مقابلے کی فضا ہوتی تھی،پاکستان کو اس کے بعد ایسی جوڑی نہیں ملی، کوشش ہوگی کہ اب ایسے بولرز ملیں جو پاکستان کرکٹ کو آگے لے کر جائیں۔
وقار یونس نے کہا ہے کہ میں پاکستان میں ہی پلا بڑھا اور طویل عرصے ملک کی نمائندگی کا اعزاز پایا، یہ تعلق کبھی ختم نہیں ہو سکتا، میں ابھی آسٹریلیا میں رہتا ہوں مگر آئندہ برس مستقل پاکستان منتقل ہوجاؤں گا۔