ہم نے اپنے بچپن کا دور صرف ٹیسٹ کرکٹ کو دیکھنے اور سننے میں گذارا پھر ایک روزہ کرکٹ کا وجود ہوا مگر ٹیسٹ کرکٹ شاید دنیا کا واحد کھیل ہے جس میں عام طورپر 5 روز میں بھی کوی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ، جبکہ ایک روزہ کرکٹ بھی پورے دن پر محیط ہوتی۔ جبکہ ٹی ٹوئنٹی نے تو دورانیے کا مسئلہ ہی ختم کر دیا۔ شرفاء کا کھیل کرکٹ جو اب سٹہ بازوں اور جواری کھلاڑیوں کی وجہ سے مشکوک کھیل بن گیا ہے اس کرۂ ارض پر سو سال سے زائد بہاریں دیکھ چکا ہے۔
جو کرکٹ کو واقعی سمجھتا ہے، صرف وہی جانتا ہے کہ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو آپ کو ہر ہر لمحے محظوظ کرے گا۔ایک بلے باز کا میدان میں بلا گھماتے ہوئے داخل ہونا، پھر گارڈ لینے اور کھیلنے کے لیے تیار کھڑے ہونے کا اپنا انوکھا انداز، جو بلے بازی کو پسند کرتے ہیں اور اس کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں، اُن کے لیے اس پورے عمل کا ایک ایک لمحہ لذت آمیز ہے۔
اس کے بعد جب کھیل کا آغاز ہوتا ہے اور بلے باز اپنی تکنیکی مہارت کا مظاہرہ کرتا ہے، چاہے دفاعی انداز میں کلائی کا استعمال ہو یا جارحانہ انداز سے بلا گھمانا، ہر انداز ایک ناقابل بیان لذت کا احساس دیتا ہے۔دوسری طرف گیند بازی اپنے اندر ایک الگ قسم کی خوبصورتی سموئے ہوئے ہے۔ تیز گیند باز ہو، یا بلے باز کو اپنی انگلیوں کے ذریعے نچانے والا اسپن گیندباز، گیند لے کر ان کا دوڑنے اور گیند پھینکنے کا مرحلہ تو ہیجان خیز ہے ہی لیکن ٹپہ پڑنے کے بعد گیند کس طرح بلے باز کو دھوکا دیتی ہے، یہ سب بھی شائقین کرکٹ کے لیے لذت بے شمار ساماں لیے ہوئے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی صاب ہمارے ملک کے مایہ ناز مزاح نگار ہیں، انہوں نے اپنی ایک مشہور کتاب “چراغ تلے” میں ایک مضمون کرکٹ کے نام سے لکھا ہے مگر یاد رہے یہ کتاب تب لکھی گی تھی جب ایک روزہ یا ٹونٹی 20 کا کوئی وجود نہ تھا صرف ٹیسٹ کرکٹ کھیلا جاتا تھا – وہ اپنے مضمون کرکٹ میں لکھتے ہیں:
ہم آج تک کرکٹ نہیں کھیلے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اس کی بُرائی کرنےَ کا حق نہیں۔ اب اگر کسی شخص کو کتے نے نہیں کاٹا ، تو کیا اس بدنصیب کو کتوں کی مذمت کرنے کا حق نہیں پہنچتا؟ ذرا غور کیجیے ۔ افیم کی بُرائی صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں، جو افیم نہیں کھاتے، افیم کھانے کے بعد ہم نے کسی کو افیم کی بُرائی کرتے نہیں دیکھا۔دیکھا جاےَ تو کھیل کام کی ضد ہے- جہاں اس میں گبھیرتا آئی یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کےلیے کھیل ہے اور گھوڑے کے لیے کام۔ فی زمانہ ہم شاعری کو، جب تک وہ کسی کا ذریعہ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بدمعاشی سمجھتے ہیں۔
Sir Syed Ahmed Khan
کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واوقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تاسف کا اظہار کرنا اپنی ناواقفیت عامہ کا ثبوت دینا ہے۔ 1857 کی رستخیر کے بعد بلکہ اس سے کچھ پہلے ہی، ہمارے پُرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ چنانچہ سر سید احمد خان نے بھی انگریزی تعلیم و تمدن کے ساتھ ساتھ کرکٹ کو اپنانے کی کو شش کی۔ روایت ہے کہ جب علیگڑھ کالج کے لڑکے میچ کھیلتے ہوتے تو سرسید میدان کے کنارے جانماز بچھاکر بیٹھ جاتے۔ لڑکوں کا کھیل دیکھتے اور روُ روُ کر دعا مانگتے۔
“الہی! میرے بچو کی لاج تیرے ہاتھ ہے۔”جیسا کہ اُوپر اشارہ کیا جاچکا ہے، کرکٹ انگریزوں کےلیے مشغلہ نہیں، مشن ہے لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرات کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے۔
ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کرکے کام میں تبدیل ہوگیا وہ اس کے موُجدین کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا۔ غالب نے شاید ایسی ہی کسی صوُرت حال سے متاثر ہوکر کہا تھا کہ ہم مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں ، بلکل بچوں کا سا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچہ سیانا ہوتا ہے، کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیرسنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔
کرکٹ کے رسیا ہم جیسے نا آشناےَ فن کو لاجواب کرنے کےلیے اکثر کہتے ہیں “میاں! تم کرکٹ کی باریکیوں کو کیا جانو؟ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا، سائنس بن گیا ہے سائنس”