تحریر : محمد شہباز شعبہ ادب سے تعلق رکھنے والے لوگ کافی حساس طبیعت کے ہوتے ہیں اور یقیناََ یہ طبیعت بھی ان کی جنس کے لحاظ سے ہی اس کی رونمائی کرتی ہے کہ وہ کیوں اور کتنے حساس ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ بہت حَسین اور قدو قامت والی نوجوان دوشیزہ اکثر اوقات ایسی حرکات و سکنات کرتی ہے۔ کہ جس سے اس کے لڑکی ہونے میں بھی شک سا ہونے لگتا ہے۔ حالانکہ لباس اور ساخت کے لحاظ سے وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ لڑکی ہی ہے۔ یہ اْس وقت کی بات ہے جب مجھے خود اْس خوبصورت اور نوجوان دوشیزہ سے محو گفتگو رہنے کا شرف حاصل ہوا مگر جگہ کا تعین مجھے بھی معلوم نہیں کہ وہ کیسی جگہ تھی۔ اْس واقعہ کے بعد میرے اور میری تنہائی کے درمیان ایک طویل و عریض مکالمہ آرائی ہوئی اور گفتگو کے دوران ایک عجیب سے استفہام نے جنم لیاکہ اس کے یہ نخرے ابھی تو قابل برداشت ہیں مگر اگر وہ لڑکا ہوتی تو۔۔۔۔۔
وہ حَسین و مخمل اور نرم و گداز لبوں سے چاشنی بکھیرنے والی عجیب دوشیزہ کو اکثر جب صبح سورج کی کرنوں میں اپنی زلفیں سنوارتے دیکھتا ہوں تو مجھے ایک لَٹ بہت بھلی معلوم ہوتی ہے جب وہ اْس تیز مگر سچ کی گرہیں کھول دینے والی سورج کی روشنی کی حرارت اس کی لَٹ کو کیچڑ میں لت پت کر دیتی ہے۔ جو کہ اس کے چہرے پر جانے انجانے میں لگ جانے والی ان سستی اور غیر معیاری کریموں کی وجہ سے اس کے حسن کا مجذوب نہیں بن پاتی۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ کریمیں بھی یقینا اسے تحفہ میں ہی ملتی ہوں گی۔ کیونکہ اس کی اپنی پسند اتنی بازاری تو نہیں کہ اپنے حسن کو جاذب نظر بنانے کے لئے وہ بازار سے محض چند روپوں کے عوض ہی ملنے والی کریموں پر اکتفاء کر جائے۔ یقینا وہ اپنے لئے خود ہی کریمی نسخے مرتب کرتی ہوگی اور خود ہی چیزوں کو چھان چھان کر ایک نئی قسم کا چھان بْورا تیار کرتی ہو گی۔ مگر یہ بھی اچھا ہے کہ وہ اب خود اتنی محنت نہیں کرتی اور چند تحفے ہی وصول کر لیتی ہے۔
لیکن اگر وہ حَسین و جمیل دوشیزہ کوئی لڑکا ہوتی تو یقینا اْسے وہ تمام فرائض سر انجام دینا پڑتے جو شاید ابھی کوئی اور ہی اس کے لئے انجام دے رہا ہے۔ ہاں مگر ایک بات کہ وہ اتنی بحث ہرگز نہ کرتی جو وہ ایک لڑکی کے روپ میں کرتی ہے۔ میں یہ التجا بھی اپنے لب پہ لانا چاہتا ہوں کہ وہ کئی بار اس وہم میں اپنے حسن پر شک جیسے گناہ کی مرتکب بھی ہوئی ہو گی جب وہ اپنے رخساروں پر چھوٹے چھوٹے ٹیلے محسوس کرتی ہوگی اور انہیں اپنی مخروط انگلیوں کی سر حدوں پر موجود طویل و عریض ناخنوں سے خْرچ خْرچ کر ختم کرنے کی کوشش میں زبردستی کی دوستی بھی داغدار نقوش کی شکل میں میسر آئی ہوگی۔ جو یقینا تحائف میں ملے اْس چھان بْورا سے ختم تو ہو جائیں گے مگر جب وہ کبھی ایسے نشانات کسی دوسری سر زمین پر پائے گی تو یا تو دھوپ میں کھڑے ہو کر اپنے سائے میں بڑے انہماک سے اپنے چہرے کی طرف دیکھے گی یا پھر کسی سے آئینہ ادھار مانگے گی کہ اس داغ کو دوبارہ دیکھ لیا جائے جو کہ کسی گناہ کی وجہ سے ہی گلے پڑ جاتا ہے۔مگر ہاںاگر وہ لڑکا ہوتی تو یقینا وہ اس قسم کی پریشانی سے دوچار نہ ہوتی کیونکہ لڑکے اس قسم کی پرواہ ہرگز نہیں کرتے۔
Destiny
وہ کہتے ہیں کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں اور قسمت ہے اِس داغ کی جسے اس عظیم آدمی کی صحبت میسر آئی اور یقینا یہ یہاں سے دھل کر ہی جائے گا۔ وہ جن حالات میں اب گزر بسر کر رہی ہے یقینا بہت اچھی ہے اْسے ان مشکلات سے دوچار تو نہیں ہونا پڑتا جن سے لڑکے ہو رہے ہیں۔ وہ تو آج کل کے معاشرے میں جہاں تعلیم کی قدر صرف سند پر موجود درجات کو دیکھ کر کی جاتی ہے اور اعلیٰ درجے کی سند کی وصولی بھی اس کے لئے کوئی مشکل عمل نہیں کیونکہ وہ منتیں کر کے بھی اچھے ہندسے حاصل کر سکتی ہے۔ وہ کلاس میں بھی بہت اچھے انداز سے تعلیم حاصل کر رہی ہے کیونکہ وہ لڑکی ہے۔ اور آجکل ہر کوئی انہی کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ لیکن اگر وہ لڑکا ہوتی تو اسے غلطی کی صورت میں یا تو کلاس سے باہر نکال دیا جاتا یا پھر اس بری طرح اس کی تذلیل ہوتی کہ جس پر اوپر سے تو وہ ہنستی مگر اندر سے اس معاشرے کی کارستانیوں پر خون کے آنسو رو کر ہی دم لیتی۔
اْس جنسی تفریق پربھی جس بناء پر اس کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا خیر کلاس میں ہر کسی کا رویہ یکساں بھی نہیں ہے۔ یہ بات بھی قابل اعتراف ہے کہ اگر اب وہ لڑکی بھی ہے تو بھی کئی مقامات پر عروج و زوال کا شکار ہے اور اگر وہ لڑکا ہوتی تب بھی حالات کشیدہ ہونے تھے۔ آج وہ بھی ان ظلمات کا شکار ہے کہ جہاں سے نور کی طرف آنا موت اور زندگی کے برابر ہے۔آج بھی ہر صورت میں اس کی عزت کو پامال کیا جا رہا ہے، آج بھی اْس کے کئی حقوق دبائے جا رہے ہیں اور اس کی چادر کو سر بازار اچھالا جا رہا ہے۔ان تمام واقعات کو دیکھنے کے بعد اْسے بھی یہ خیال آتا ہو گا کہ “اگر وہ لڑکا ہوتی تو ۔۔۔” تو یقینا وہ ان اذیتوں سے دو چار نہ ہوتی اسے وہ تمام حقوق ملتے جن کی وہ حقدار ہے اسے اپنی رخصتی پر ان الفاظ کا ہر گز سامنا نہ کرنا پڑتا کہ وہ تو لڑکی ہے اور اسے تعلیم یا جائیداد دیکر کسی اگلے گھر کو سْکھی کر نے سے کیا ملے گا۔
وہ یقینا اپنے اندار ایک سمندر ہے جو کہ اچھے اور بْرے تمام کلمات کو سجائے ہوئے ہے جن میں سے اکثر تو وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتی ہے مگر کئی اس کی زبان تک آنے کی جرات بھی نہیں کر سکتے۔ وہ دوشیزہ اس قدر گلابوں سے مزین ہے کہ اس کی اَدائوں کو میں صفحات پر نہیں اتار سکتا مگر مستقبل میں کچھ اْن اَدائوں کو بیان کرنے کی ضرور کوشش کروں گاکہ جن ادائوں کو وہ خود مانتی ہے کہ یہی اْس کے حْسن کا سر چشمہ ہیں اور اگر وہ لڑکا ہوتی تو یقینا وہ اپنے اس حْسن کی بجائے کسی اور ہی کے حْسن کی گرویدہ ہوتی۔