تحریر ؛ فرح دیبا ہاشمی ہمارا طاقت کے نشے میں مخمور پڑوسی ہندوستان اس وقت سیاسی ،معاشرتی ،معاشی ،مذہبی ،اور نظریاتی طور پر تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ۔وہاں انتہا پسند اور اعتدال پسند ہندو لیڈر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں ان کی آپسی جنگ ہمارے لئے بھی اہمیت کی حامل ہے ۔اس کا سبب یہی ہے کہ اسلام ،پاکستان اور مسلمانوں کی مخالفت انتہا پسند ہندوئوں کا طرہ امتیاز بن چکا ہے اسی دشمنی کے سہارے وہ اپنی سیاست کو آگے بڑھا رہے ہیں اور ہندو عوام کے جذبات کو بڑھکا کر انہیں اپنے مشن کا حصہ بنا رہے ہیں ۔یہ انتہا پسندہندو نفرت اور انتقام کی سیاست کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں ۔جبکہ اعتدال پسند ہندو راہنما مذہب کو سیاست میں داخل کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔تاریخ دان لکھتے ہیں کے قدیم ہندوستان کے اصل باشندے دراوڑ تھے جو پر امن ،مہذب اور شریف النفس تھے ۔انہوں نے ہی شمالی ہندوستان میں ترقی یافتہ شہر آباد کیئے اور انسانی تہذیب و تمدن اور ثقافت کو فروغ دیا انہی نے ہڑپہ ا ور وادی سندھ کی تہذیب کی بنیاد رکھی ۔کم و بیش ساڑھے تین ہزار سال قبل ایک ایسی قوم نے شمالی ہند پر حملہ کر دیا جس کے بارے میں تاریخ دان حتمی طور پر کچھ نہیں جانتے بعض کا خیال ہے کہ یہ قوم وسطی ایشیا سے آئی کچھ لکھتے ہیں کہ یہ ایران سے آئی اور کئی کہتے ہیں کہ یہ گائے کے بچھڑے کی پوجا کرنے والے وہ اسرائیلی تھے جنہوں نے اطاعت موسی سے انکار کر دیا تھا۔
بہرحال اس جنگجو قوم نے پر امن دراوڑوں کو شکست دے دی اور وہ بیچارے جنوبی ہند کی جانب ہجرت کر گئے ۔اس طرح ہندوستان کے اہم ترین حصے شمالی ہندپر حملہ آوروں نے اپنا تسلط قائم کر لیا ان قابضین کو آگے چل کر برہمن اور انیسوی صدی میں آریہ کہا گیا ۔شمالی ہند میں ان حملہ آوروں نے ایک نئے سماجی ،معاشرتی ،سیاسی اور مذہبی نظام کی بنیاد رکھی ۔ مذہبی نظام میں برہما ،وشوز، اور شواہم تین دیوتا قرار دیئے گئے ۔ حملہ آوروں کا سماجی نظام چار طبقوں پر استوار کیا گیا ۔برہمن ، کھشتری ، ویش ،اور شودر حملہ آوروں نے خود کو برہمن یعنی برہما کے بیٹے قرار دیا اور اس سماجی نظام میں سب سے بلند ترین مقام والے گنے گئے ۔بادشاہ ،مذہبی راہنما ، اور اساتذہ صرف برہمن طبقے ہی سے ہوتے ہیں ۔ حملہ آوروں میں جو سماجی طور پر کم رتبہ تھے انہیں کھشتری کہا جاتا فوج بالعموم کھشتری طبقے پر مشتمل ہوتی ۔زراعت پیشہ ، تاجر اور کاروباری ویش کہلاتے ہیں جبکہ باقی ماندہ دراوڑوں کو شودر یا اچھوت کا درجہ دیا گیا اور یہ دراوڑ درج بالا تین طبقوں کے غلام تھے اور انہیں ترقی کرنے یا اپنی حالت بدلنے کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔
ذات پات کے اس نظام نے جب بہار اور بنگال میں اپنا اثر قائم کرنا چاہا تو وہاں کے مقامی راہنما اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔ان میں مہاتما بدھ اور مہاویر کو خصوصی شہرت ملی ۔ رفتہ رفتہ ہندوستانیوں کی اکثریت نے بدھ مت اختیار کر لیا اور برہمن طبقہ پسپائی پر مجبور ہو گیا ۔آخر کار آٹھویں صدی عیسوی میں گرو شنکر اچاریہ کی قیادت میں برہمن متحد ہوئے اور انہوں نے بدھ مت پر حملہ کر کے اسے شکست دی یوں ہندوستان میں ایک مرتبہ پھر برہمن ازم فروغ پانے لگا ۔ گو آہستہ آہستہ مختلف علاقوں میں لوگ مختلف دیوی دیوتائوں کی پرستش کرنے لگے بہرحال برہمن طبقے کی اجارہ داری سے بت پرستی ہندوستان کا شعار بن گئی ۔ان کی آم سے پہلے یہاں بت پرستی کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملتے ۔جب عرب مسلمان ہندوستان پہنچے تو انہوں نے خیبرپختونخوا ، بلوچستان ، سندھ اور پنجاب کے بیشتر علاقوں پر اپنی حکومت قائم کر لی ۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے شمالی ہند کے لوگوں کو ہندو کہہ کر پکارا یعنی دریائے سندھ کے پار بسنے والے لوگ ۔جب مسلمان ہندوستان آئے تو یہ علاقہ بہت ساری ریاستوں اور حکومتوں میں تقسیم تھا۔ مسلمان حکمرانوں نے ایک وسیع علاقہ فتح کیا اور یہاں ایک مضبوط اور پائیدار حکومت قائم کی ۔بیشتر مسلم حکمران رواداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بت پرستی کے عقائد سے چھیڑخوانی نہ کرتے تھے۔
Aurangzeb
مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں مرہٹوں کا ظہور ہوا تو پہلی مرتبہ مسلمانوں کو سخت اندرونی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہ شائید اتفاق کی بات نہیں کہ بعد میں مرہٹوں کے علاقے مہاراشٹر ہی میں انتہا پسند تنظیموں شیو سینا اور آر ایس ایس کا جنم وقوع پذیر ہوا ۔ حالانکہ اورنگ زیب عالمگیر بت پرستی کے بہت بڑے مخالف تھے مگر انہوں نے رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پر امن غیر مسلم رعایا سے اچھا سلوک روا رکھا ۔ وہ تو انگلستان سے آنے والے انگریز ہی تھے جنہوں نے ہندوستان میں قدم جمانے کے لیئے بت پرستوں اور مسلمانوں کو باہم لڑادیا ۔اس سونے کی چڑیا پر قابض رہنے کے لیئے یہ ان کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی ہندوستان میں انگریز ایک قلیل تعداد میں تھے ایسی صورت میں وہ یہاں پائیدار حکومت نہیں بنا سکتے تھے اس مسئلے کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ غیر مسلموں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا جائے یوں وہ آپس میں لڑتے بھڑتے رہیں گے اور انگریز بہادر مزے سے حکومت کے مزے لوٹنے میں محو رہے گا ۔یہ تجویز ایسٹ انڈیا کمپنی کے کرتا دھرتائوں کو پسند آئی مگر مسئلہ یہ تھا کہ غیر مسلم اور بت پرست کئی اقوام اور دھڑوں میں بٹے ہوئے تھے ان کی تہذیبیں اور رسم و رواج بھی مختلف تھے چنانچہ انہیں مسلمانوں کے مقابل لانے کے لئے یہ ضروری تھا کہ ان کو ایک قوم کی صورت میں ڈھالا جائے۔
یہ کام انگریز مئورخین اور نام نہاد دانشوروں نے بطریق احسن انجام دے ڈالا ۔ اس سازش کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے ایسٹ انڈیاکمپنی نے نامور برطانوی تاریخ دان جیمز مل کی خدمات حاصل کیں ۔ کمپنی کے تنخواہ دار نمائینے جیمز مل نے تین جلدوں پر مشتمل ہندوستان کی تاریخ رقم کر ڈالی جو ہسٹری آف برٹش انڈیا کے نام سے شائع ہوئی ۔ اس تاریخ میں مل نے ہندوستان کو تین ادوار ہندو ، مسلم اور عیسائی میں تقسیم کر دیا ۔ یوں انگریز نے ہندوستان میں فرقہ وارانہ اختلافات کا بیج بو دیا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اولا بنگال پر قبضہ کیا اور با اثر بنگالی برہمنوں کو یہ باور کروایا کہ ان کی اپنی تہذیب و ثقافت ہے اور وہ مسلمانوں سے بالاتر قوم ہیں چنانچہ بنگالی برہمنوں نے بت پرستوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے مہم چلائی جس میں وہ کامیاب رہے ۔ یوں ایک نئے مذہب ہندومت کا قیام عمل میں آگیا ۔ مگر در حقیقت یہ برہمن مت تھا کیونکہ اس نئے مذہب کے توسط سے برہمنوں کو ہندوستانی سوسائٹی میں بار دیگر اعلی مقام میسر آگیا۔
ایک برہمن دیانند سرسوتی نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند تحریک چلا کر ہندوستان کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھونک دیا ۔ سوامی سرسوتی نے اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں آقائے نامدار نبی مکرم ختم الرسل ۖ کی شان میں گستاخی کی اس کا دعوی تھا کہ غیر عرب مسلمان درحقیقت ہندو ہیں لہذا اس نے انہیں دوبارہ ہندوبنانے کے لئے شدھی تحریک کا آغاز کیا۔
Babri Masjid
غرض اپنے اقتدار کو طوالت اور استحکام دینے کے لئے انگریز نے جن فرقہ وارانہ اختلافات کی بنیاد رکھی وہ تیزی سے پھیلتے چلے گئے ۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کی صورت میں پہلا ہندو مسلم فساد برپا ہوا پھر ہندو طاقت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے تنظیمیں وجود میں آنے لگیں ان تمام تنظیموا کے سربراہ اور اعلی عہدیداران برہمن ہی تھے گذشتہ چند برسوں کی مہمات کا یہ ثمر ہیکہ آج ہندو قوم پرستی انتہا پرستی کا روپ دھار چکی ہے ۔برہمنوں کی قائم کردہ آر ایس ایس کا سیاسی لے پالک بی جے پی اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکا ۔اس جماعت کی اصل قیادت برہمنوں کے ہاتھ میں ہے تا ہم وہ اسے عوام میں مقبول و معروف کرنے کے لئے نچلی ذات کے ہندوئوں کو بھی کئی اہم عہدے دیئے ہوئے ہیں ۔ جس کی سب سے بڑی مثال موجودہ وزیر اعظم ہندوستان نریندر مودی جو گھانچی (تیلی)ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور دراصل برہمنوں کی کٹھ پتلی ہیں۔
نریندر مودی نے جیسے ہی عنان حکومت سنبھالا وہ اپنے آقا برہمنوں کے ایجنڈے پر مصروف عمل ہو گئے ۔ مودی نے ہندوستان کو وکاس (ترقی ) کا وعدہ کیا تھا مگر اصل میں برہمن ایجنڈہ تو فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینا تھا تا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی مانند وہ بھی اپنے اقتدار کو مضبوط کر سکیں چنانچہ مودی حکومت اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف کئی اقدامات کرنے لگی مثلا گائے کے ذبع پر پابندی ،اسلامی قوانین پر حملے ،مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور شدھی تحریک کا احیاء تاہم اس ایجنڈے کو اعتدال پسند ہندوئوں نے قبول نہیں کیا جس کی ایک جھلک فروری 2015 میں نئی دہلی کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑااور عام آدمی پارٹی یہ الیکشن جیت گئی۔
ریاست بہار کے الیکشن میں بھی بی جے پی کو ہزیمت اٹھانا پڑی ان حقائق سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ برہمنوں کو سر توڑ کوشش کے باوجود وہ دلت ہندوئوں کو قوم پرستی کے ایجنڈے پر اکٹھا نہیں کر پائے تعلیم و شعور کی بڑھوتری نے عام ہندوئوں پر ان کا خفیہ ایجنڈہ کھول کر رکھ دیا ہے۔
Farah Hashmi
تحریر ؛ فرح دیبا ہاشمی Mail;dar e nigahse92@gmail.com