تحریر: ثوبیہ خان انسانیت ابتداء ہی سے کئی حصوں میں بٹتی آئی ہے۔ ذات پات ٫نسل ٫رنگ ٫قد ٫دولت ٫شہرت ٫عزت ٫غربت اور نہ جانے کون کون سی لکیریں کھینچ کر انسانوں کی تفریق کی جاتی رہی ہے ۔ ہمیشہ سے کچھ انسانوں کو برتر ٫افضل ٫اونچا و اعلٰی سمجھاجا تا ہے اور باقی انسانوں کو بدتر ٫گھٹیا ٫نیچ اور حقیر گمان کیا جا تا ہے یعنی انسان تہ در تہ فرقوں میں بٹا ہوا ہے ۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے٫ نئی بات یہ ہے کہ ان تہوں میں ایک نئی تہ کا اضافہ ہو گیا ہے اور یہ ہے برینڈز کی تہ۔ اور پاکستان میں یہ تفریق بڑی تیزی سے تقویت پا رہی ہے۔
موجودہ دور میں پاکستان کی آبادی تین کلاسز پر مشتمل ہے ۔ایک کلاس وہ ہے جو صبح سویرے اٹھ کر دن بھر محنت مزدوری کرتی ہے اور رات تک وہ اتنا بھی نہیں کما پا تی کہ اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکے۔ جہاں ضروریات زندگی دن بھر میں دو وقت کھاناکھا نے کو مل جانے پر محیط ہوتی ہے۔اس کلاس کی آدھی سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتی ہے یعنی اس کلاس کے لوگوں کو برینڈز وغیرہ الا بلا سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ان کی بلا سے لوگ سونے کے چمچ سے کھائیں یا چمچ سے سونا٫ان کی زندگی پیٹ کی آ گ کے گرد گردش کر تی ہے
دوسری کلاس وہ ہے جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتی ہے اور محلوں میں رہتی ہے۔اس کلاس نے کبھی بہترین سے کمتر دیکھا ہی نہیں ہوتا یہ کلاس نے ہمیشہ برینڈڈ اشیاء ہی استعمال کرتی ہے۔ اس لئے ان لوگوں کے لئے برینڈڈ اشیاء اتک رسائی حاصل کرنا کوئی فخر کی بات نہیں ہوتی یعنی ان لوگوں کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون سا نیا برینڈ لانچ ہوا ہے اور کہاں کس برینڈ پر سیل لگی ہے۔
Lower Class
اب رہی بات تیسری کلاس کی۔یہ وہ لوگ ہیں جو لوئیر کلاس کی طرح دن بھر محنت بھی کرتے ہیں اور ایلیٹ کلاس کی طرح زندگی سے لطف اندوز ہونے کا کچھ حق بھی رکھتے ہیں اسی لیے یہ کلاس ہمیشہ اچھے سے اچھے کی تلاش میں رہتی ہے۔عمومی طور پر اچھے سے اچھے کی تلاش میں رہنا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اگر یہ اچھے سے بہتر کی تلاش آپ کو اخلاقی قدروں سے گرا دے تو یقینا یہ خطرناک صورت حال ہوگی۔
بد قسمتی سے ہمارا معاشرے کی یہ کلاس بڑی تیزی سے مادیت کا شکار ہوتی جارہی ہے۔جہاں انسان کو ‘انسانی ‘ بنیادوں پر نہیں بلکہ مادی بنیادوں پر پرکھا جا رہاہے جہاں اس کی تہذیب اس کے سلیقے کو نہیں بلکہ اس کے پہناوے اور دکھلاوے کو سرہایا جا رہاہے۔ جہاں برینڈڈ اشیاء استعمال کر نے کو باعث فخرسمجھارہا ہے اورجو یہ برینڈڈ اشیاء استعمال کر نے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو وہ کمتر گمان کیا جارہا ہے۔
Brands
یہ ایک بیماری ہے جوہماری قوم میں سرائیت کر رہی ہے جو ہر چھوٹے بڑے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اس بیماری میں انسان گوشت پوشت کے بجائے برینڈز کے ٹیگز میں لپٹا نظر آتا ہے اس بیماری میں وہ شخص جسے بولنے کا سلیقہ بھی نہ ہو وہ بھی برینڈز پہن کر خود کو اعلٰی و ارفع سمجھتا ہے اور اگر اس بیماری سے متاثرہ شخص کو کہیں سے یہ خبر مل جائے کہ فلاں برینڈ پر سیل لگی ہے تو وہ اعلٰی الصبح وہاں پہنچ جاتا ہے۔
دوران خریداری وہ طوفان بدتمیزی بپا کرتا ہے گویا جنگ چھڑ گئی ہو۔بیمار شخص برینڈ وئیر کر نے کے نام پر عجیب و غریب مخلوق بن جا تا ہے
یہ سب علامتیں ایک بیماری کی ہی تو ہیں اس سے پہلے کہ یہ بیماری ہمارے پورے معاشرے کو بیمار کردے اور ہم رہا سہا معاشرتی توازن بھی کھو بیٹھیں ہمیں اس مسلئے کے حل کے لئے اقدامات کرنے ہونگے۔
Disease
ہمیں گھروں میں٫ سکولوں میں کالجوں میں الغرض ہر سطح پر احیائے اخلاقیات کے لئے سر توڑ کوششیں کر نا ہونگی۔
اس سے پہلے کہ ہمارا معاشرہ مادیت کے اس گڑھے میں کہیں گناہ نیچے گر جائے ہمیں ایک بار پھر اخلاقیات٫ روایات اور متانت کا سبق اپنی قوم کے نوجوانوں کوپڑھنا ہوگا۔