تحریر : ممتاز ملک. پیرس دنیا بھر میں جہاں سادگی اپنانے پر زور دیا جاتا ہے اور لوگ سال میں چار جوڑے میں بڑی آسانی سے گزارہ کر سکتے ہیں. وہاں ہماری الماریاں کپڑوں سے اٹی پڑی ہیں اور کہیں جانا ہو تو ہم سوچنے بیٹھ جاتے ہیں کہ کیا پہنوں ؟ میرے پاس تو کوئی ڈھنگ کا جوڑا ہی نہیں ہے … تو یہ سب سے اچھا وقت ہے کہ ان” بے ڈھنگے ” جوڑوں سے فورا اپنی الماری کو خالی کیا جائے . اور انہیں کسی ایسے کو دیدیا جائے جس کے لیئے وہ “ڈھنگ “کے جوڑے ہیں . آپ کی الماری میں سڑنے سے اچھا نہیں ہے کہ وہ کسی اور کو سردی گرمی سے بچانے اور ستر پوشی کے کام آئے . کیونکہ دنیا تو یہ جان چکی ہے کہ کپڑوں کے علاوہ بھی زندگی میں اور بہت سی ضروریات اور اہم چیزیں ہوتی ہیں .
سوائے ایک ملینئیر اور بلینئیر کے، جو اپنے پیسے کو اڑانے کے لیئے بڑے بڑے ناموں کے برینڈ پر خرچ کرتے ہیں . برینڈ کے پیچھے بھاگنے والے مڈل کلاس والوں کی زندگی کا سارا سکون غارت ہو جاتا ہے . انہیں ہر وقت یہ انتظار رہتا ہے کہ ایک بڑے نام کے جوتے، کپڑے، پرفیومز اور دیگر سامان کہاں سے کم سے کم قیمت میں مل سکے. جو جوڑا ہم اپنے درزی کو ایک ہزار روپیہ دیکر ایک ہزار کا کپڑے میں ٹوٹل دو ہزار روپے میں بنا سکتے ہیں، وہی جوڑا محض ایک میڈیا پر اشتہارات سے اچھالے گئے کسی بھی ڈیزائنر نام کی خاطر تیس ہزار سے لیکر ستر سے اسی ہزار تک میں جا کر خریدیں …کیا یہ برانڈ کا ٹھپہ اتنا ضروری ہے کہ اس کی خاطر اپنی زندگی کا سکون غارت کر دیا جائے …اپنی پوری تنخواہ محض یہ جوڑے بنانے پر خرچ کر دی جائے یا اپنے گھر میں کمانے والے پر اسقدر بوجھ لاد دیا جائے کہ جس ایک جوڑے کی قیمت سے سارے مہینے کا کچن کا خرچ چلایا جا سکتاہے کہ جو لازمی خرچ ہے اور اس کے بنا گزارہ ہی نہ ہو سکے ، اس میں ہر چیز کو چھوڑ کر محض ایک دو جوڑے بنا لیئے جائیں. کہ جن کے بنا بغیر کسی تکلیف کے گزارہ کیا جا سکتا ہے . کہاں کی عقلمندی ہے.
کچھ عرصہ قبل ہی ایک مشہور برینڈ کے جوڑوں کی سیل لگی جہاں پر ان ہزاروں کی مالیت کے جوڑوں کے لیئے خواتین نے کتوں کی طرح ایک دوسرے کو مارا پیٹا .چھینا چھپٹی کی. انکی لڑائی نے دیکھنے والوں کو سانپ اور نیولے کی لڑائی بھی بھلا دی . ان خواتین کو اور ایسی تمام خواتین کو جو برینڈز کونشش ہو کر اپنے گھر اور گھر کا سکون تباہ کر بیٹھی ہیں . اپنا وقار گنوا بیٹھی ہیں . اپنا آپا کھو چکی ہیں ان سب کو چاہیئے کہ اگلے جوڑے کی خرید سے پہلے کسی اچھے ذہنی معالج سے رجوع فرمائیں . کیونکہ اس جوڑے سے زیادہ ضروری آپکے پیاروں کے لیئے آپکا جسمانی اور ذہنی طور پر تندرست رہنا ہے.
ہمارے ملک کا میڈیا شب وروز سادگی کے بجائے فیشن پروری اور برینڈز کی نشونما کرنے میں مصروف ہے اور دیکھنے والوں کے لیئے احساس کمتری یا مقابلے کی ایک غیر صحت مند دوڑ اور مقابلے کی فضا پیدا کر دی گئی ہے . وہاں دیکھنے والوں کے لیئے بے حد ضروری ہے کہ اپنے دل اور دماغ کو سنبھال کر رکھیں . اور اپنی آمدنی ہی میں اپنے بجٹ میں رہتے ہوئے خود اپنا سٹائل اور فیشن اپنے ارد گرد والوں میں متعارف کروائیں . اور یقین جانیئے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے . آپ کے اندر کےٹیلنٹ یا صلاحیت استعمال ہونے کو بے قرار ہے اور آپ اپنے دو ہزار روپے کے جوڑے کو مفت میں تیس ہزار کا بونس بنا کر دوسرے کی جیب میں کیوں ڈال رہی ہیں.
وہی رقم آپ کی دوسری ضرورتوں پر خرچ ہو سکتی ہے اور اگر ضرورت نہیں ہے تو آپ کی آج کی بچت کل کو آپکے کام آئے گی.
یاد رکھیئے حالات اور خاص طور پر مالی حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے . آج کی آسودگی کو آئندہ کی کم آمدنی کے زمانے کے لیئے پس انداز کر کے رکھیئے . تاکہ آپکو کسی کے سامنے مقروض نہ ہونا پڑے.