پاکستانی عوام کا دنیا بھر میں ایک مقام ہے حب الوطنی، انسانیت کی خدمات کا جذبہ جنگ ہو یا امن، قدرتی آفات سمیت ہروقت انسانیت کی خدمات میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے پاکستان کی عوام نے جس بہادر، ایماندار،سچ چیئرمین تحریک انصاف،وزیراعظم عمران خان کو کامیاب کروایا،ہر طرح کے ٹیکس کی ادائیگی پر لیبک کیا۔ اس کے وزراء کی غیر اخلاقی حرکات سے دنیابھر میں رسوئی کا سامنا ہے۔کیوں کہ دنیابھرمیں نئی جنگ کا آغاہوچکا ہے لیکن پاکستان کے کچھ لوگوں ابھی پرانی یادوں اور کہانیوں میں مصروف ہیں۔جیسے کہ گزشتہ روز ایک وزیر کے بیٹے کی دعوت ولیمہ میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا،اس طر ح حریم شاہ نامی خاتون کا دعویٰ کہ میں جب بھی چاہوں۔بیوروکریسی اور صوبائی اور وفاقی وزراء کی عزت سے کھیل سکتی ہوں۔
دوسری جانب فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا پر پوسٹوں کا طوفان آگیا ہے کہ کُرسی اور اقتدار کا نشہ بھی بڑا عجیب ہے، اس نشے سے زیادہ طاقتور شاید ہی کوئی نشہ ہو۔ اس نشے میں بھائی نے بھائی کو قتل کیا،بیٹے نے باپ سے بغاوت کی، میر جعفر نے غداری کی،اس دوڑ میں دکن کا صادق کیسے پیچھے رہتا، غرض تاریخ بھری پڑی ہے ایسے واقعات اور حادثات سے۔اس نشے کی خاطر بھٹو جیسا لیڈر اپنے نشے میں جنرل ضیا کے نشہ کی بھینٹ چڑھ گیا۔بینظیر بھٹو پتہ نہیں کس کے نشہ کا شکار ہوئی؟ آج تک معلوم نہ ہوا، کوئی اپنا تھا یا غیر تھا؟
نواز شریف نے اقتدار کے نشہ میں پرویز مشرف کو شکار کرنے کی کوشش کی اور خود اپنے نشے کا شکار ہو گیا۔نواز شریف وہ واحد بدقسمت سیاستدان حکمران ہے جو دوسری دفعہ بھی اپنے نشے کا شکار ہوااور اپنی بیٹی کے ساتھ کرپشن میں سزا یاب ہوا اور جیل گیا اور اب اقتدار کے نشے کی خاطر مارا مارا پھر رہا ہے۔جس خاندان کی یکجہتی کو کوئی نہ توڑ سکا،اقتدار کی ہوس اور نشے نے توڑ دیا، نواز شریف جیل اور شہباز شریف لندن میں بیٹھا ہے، اور جو بھائی نواز شریف کی طرف آنکھ اُٹھا کے بھی نہیں دیکھتا تھا ائیرپورٹ تک نہ پہنچ سکا۔
اس حقیقت سے کوئی ان نہیں کہ اقتدار پہ یا کُرسی پر رہتے ہوئے لوگوں کی شکل پر عجیب سا نکھار ہوتا ہے، گالوں کی سُرخیاں اور چال ڈھال بتا رہی ہوتی ہے کہ صاحب آج کل اقتدار میں ہیں یا بہت اچھی پوسٹنگ ہے ان کے پاس۔ان کے آگے پیچھے پولیس کی گاڑیاں چل رہی ہوتی ہیں، کئی کئی گن مین جیسے سب سے زیادہ خطرہ ان کی ذات کو ہے۔اور جب یہی لوگ اقتدار میں نہیں ہوتے تو ان کی شکل پر عجیب سی اداسی چھائی ہوئی ہوتی ہے، یتیمی برس رہی ہوتی ہے، نہ سوٹ نہ بوٹ،کوئی گن مین بھی نہیں کوئی پولیس وین بھی نہیں اور نہ ہی جان کو کوئی خطرہ۔کہتے ہیں کہ وزرا میں بھی اچھی اور بُری وزارتیں ہوتی ہیں اچھی وزرات کا مطلب جہاں اختیارات زیادہ ہوں، جہاں آپ زیادہ سے زیادہ پیسہ بنا سکتے ہیں۔اچھی وزارت پہلے سے ریزرو ہوتی ہے، جو جتنا لیڈر کے قریب ہو گا اُتنی اچھی وزارت ملے گی اور اچھی وزرات ہمیشہ کماؤ پوت کو ملتی ہے، جو خود بھی کھائے اور لیڈر کو بھی کھلائے، خاص طور پر یہ بات آپ کو اُس وقت نظر آئے گی جب حکومت کمزور ہو اور ایم کیو ایم اور ق لیگ جیسی پارٹیاں اچھی وزرات مانگ رہی ہوں۔
ملکی سیاست خاص طور پر دیہی علاقے کی سیاست صرف ایس ایچ او،پٹواری،ڈی ایس پی اور تحصیلدار لیول کی ہوتی ہے۔ایم پی اے کو دو باتوں سے غرض ہوتی ہے کہ ایس ایچ او ر ڈی ایس پی ان کی مرضی کا ہو، پٹواری اور تحصیلدار ان کی مرضی کا ہو، کیونکہ جب یہ ان کی مرضی کے ہوں گے تو کوئی فکر نہیں،سب اچھا ہوتا ہے۔
آج کل بھی وہی پالیسی چل رہی ہے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔اکثر سیاستدانوں کو یہ بھی کہتے سُنا کہ عوام کی خدمت کا جذبہ لے کہ سیاست میں آئے ہیں مگر وہ جذبہ اور خدمت کیا ہوتی ہے، سب کو معلوم ہے۔وزارت سے لیکر اہم عہدوں کا لالچ اور اقتدار کی ہوس کی دوڑ چل رہی ہوتی ہے اور جب اپنی مرضی کی کرُسی اور اقتدار مل جائے تو پھر جو اطمینان،اکڑ اور چہرہ پہ لالی نظر آتی ہے تو اس کی خاطر تو جان بھی دی جا سکتی ہے۔
سیاست نہ تو خدمت ہے نہ عبادت،صرف ہوسِ اقتدار ہے، جس میں اختیارات اور دولت تو ہے مگر عزت نام کی کوئی چیز نہیں۔عزت تو آنی جانی چیز ہے، عزت تو نیلام ہوتی ہے میڈیا پہ،سوشل میڈیا پہ، مگر اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہے کہ نہ تو ماں،بہن،بیوی اور خاندان کی عزت نظر آتی ہے نہ ہی جذبہ حُب لوطنی بس نظر آتا ہے تو اقتدار کا نشہ اور ہوس اور اب کِس کا نشہ کس کو شکار کرے گا اللہ جانتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو وزراء سمیت تمام باکردار اراکین ٹیم کی ذمہ داریوں کے فیصلے پر نظرثانی کرنا چاہیے تاکہ حریم شاہ جیسی خواتین ملکی بدنامی کا باعث نہ بنا سکے۔