باوجود اس کے کہ مجھے اندازہ ہے کہ میں کبھی ایم پی اے مہر اعجاز اچلانہ کی گڈ بکس میں نہیں رہا خاص طور پر مسلم لیگ ن کے سا بقہ دور حکومت میں جب مہر صاحب دیزاسٹر منیجمنٹ کے صو بائی مشیر تھے اور ہم نشیب میں ہو نے والے دریائے سندھ کے کٹائو سے متاثرین کے حقوق و مطا لبات کے لئے نہ صرف اپنی صحافیانہ ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے بلکہ عملی طور پر ان کی بحالی اور متبادل آ باد کاری کے مطا لبات کی جنگ لڑ رہے تھے ۔ اسی سلسلہ میں لگائے جانے والے بھوک ہڑتالی کیمپ میں کی گئی بہت سے مقررین کی تنقید کا ہدف صوبائی مشیر محترم ہی رہے کہ نشیب میںدریائی کٹائو سے متاثرین کی بحالی و آ باد کاری انہیں کے ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری تھی ۔ گو مہر صاحب نے اپنی خفگی کا اظہار بر ملا تو نہیں کیا لیکن کہا جاتا ہے نا کہ رویئے انسان کی چغلی کھاتے ہیں ہمیں بھی مہر صاحب کے رویوں نے ہی ان کی ناراضگی کا احساس دلایا وہ ایسے کہ گذرے دو ڈیڑھ سا لوں میں جب بھی ہم نے انہیں اپنے صبح پا کستان لا ئیو پروگرام میں دعوت دی وعدوں کے با وجود وہ تشریف نہیں لا ئے اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ ہم کتنے پسند ہیں انہیں ۔۔ خیر ۔۔ وہ ایک شعر ہے نا کہ
اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی نا خوش میں زہر ہلا ہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
کے مصداق مہر صاحب سے اتنے اچھے” صحافتی تعلقات “ہو نے کے با وجود ۔۔قسم سے میں یہ نکتہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مو جودہ ایم پی اے سید رفاقت علی گیلانی کی طرف سے لیہ کی عوام کو دیئے گئے بہادر یو نیورسٹی کا نام سائوتھ پنجاب یو نیورسٹی رکھنے کے میگا پرا جیکٹ سے وسیب میں کو نسا تعلیمی انقلاب آ ئے گا اور وسیب کی ایجو کیشن ریٹنگ میں کتنا اضافہ ہو گا ؟
معترضین کو یو نیورسٹی کے قیام پر اعتراض نہیں بلکہ اعتراض اس کے نام پرہے اسی لئے موجودہ ایم پی اے سید رفاقت علی گیلانی کی طرف سے دی جانے والی ایک تجویز میں وزیر اعلی پنجاب سے درخواست کی گئی ہے کہ مجوزہ زیر تکمیل بہادر یو نیورسٹی کا نام تبدیل کر کے سائوتھ پنجاب یونیو رسٹی رکھا جا ئے ، جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ میرے نزدیک مشیر اوقاف کی اس تجویز سے پو لیٹکل نمبرسکورنگ تو ہو سکتی ہے سا بقہ حکمرانوں کے نا موں کی افتتا حی تختی اکھاڑ کر مو جودہ تبدیلی اقتدارو اختیا ر کی نئی افتتاحی تختی لگا نے کا تو جواز پیدا کیا جا سکتا ہے لیکن افسو سناک حقیقت یہ ہے کہ اس نام کی تبدیلی کے میگا پراجیکٹ سے یو نیورسٹی کا قیام مزید قانو نی الجھنوں کا شکار ہو کر اس زیر تکمیل پرا جیکٹ کو بر سوں تا خیر کا شکار کر سکتا ہے ۔
یہ ایک تلخ سچا ئی ہے آزادی کے ستر برس گزرنے کے بعد بھی تھل وسیب میں یو نیورسٹی اور نشتر ہسپتال جیسے کسی ادارے کا کوئی وجود نہیں ، جہاں تک ذکر ہے مظفرگڑھ ، لیہ ، بھکر ، خوشاب اور میانوالی کے اضلاع میں بسنے والے لو گوں کو ریاست کی طرف سے دی جانے والی تعلیمی سہو لتوں کا تو ان اضلاع میں کوئی سر کاری یو نیورسٹی نہیں ہے وہ تو بھلا ہوا عمران خان کا کہ انہوں نے پرائیویٹ سیکٹر میں میانوالی کو نمل یو نیورسٹی کا تحفہ دے کر ماں دھرتی کا کچھ قرض اتارا لیکن ریاست ماں کی گود اس علاقہ کے وسیبیوں کے لئے تا حال بانجھ ہے ۔ نہ سڑکیں ، نہ ہسپتال ، نہ یو نیورسٹی ، نہ کیڈٹ کالج اور نی ہی کو ئی ٹراما سنٹر ۔ یعنی نہ اعلی تعلیم اور نہ ہی بہتر علاج ، پڑھنا ہے تو چین جا ئو ، علاج کرانا ہے تو چین لے جا ئو کے مصداق ان اضلاع میں بسنے والے طا لبان تعلیم و علاج آج کے جدید دور میں بھی ملتان ، لا ہور اور اسلام آباد کی خاک چھا ننے پر مجبور ۔ اس وسیب میں ایئر پورٹ تو دور کی بات ملتان سے میانوالی تک کی اکلوتی سڑک ایم ایم روڈ کی حالت اتنی شکشتہ ، نا گفتہ بہہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کہ الا اماں ، سالانہ بنیادوں پر سینکڑوں حادثات ، احتجاج اور ہزاروں پینا فلیکس بھی اقتدارو اختیار کے بڑوں بڑوں کی توجہ علاقہ کی اس بڑی محرومی اور اہم مسئلہ کی طرف تو جہ نہیں دلا سکے ۔
ماضی میں اس وسیب کے سبھی بڑے گودھا “ہم قیدی تخت لا ہور “کے نعرے لگانے کے با وجود اسلام آ باد اور لا ہور کی اقتداری غلام گردشوں کے ہمراز رہے ۔ ایک لمبی فہرست ہے ان کی گرمانی ، دستی ، کھر ، قریشی ، ہنجرا ، جکھڑ ، تھند ،بخاری ، سیہڑ ، سواگ ، نوانی ، ڈھانڈھلے ، شا ہانی ، چھینے ، اعوان اور اب نیازی یہ سب ملکر بھی بر سوں کے اقتدار و اختیار سے ایک سڑک ، ایک یو نیورسٹی اور ایک نشتر جیسا ہسپتال اپنے ووٹرز کا مقدر نہ بنا سکے ۔
ستر بر سوں کی ان طویل محرو میوں کے بعد سا بقہ مسلم لیگی دور حکو مت میں ایم پی اے مہر اعجاز اچلانہ کی کو ششوں سے بی زیڈ یو سب بہادر کیمپس لیہ کا قیام بہر حال علاقائی تعلیمی انقلاب میں ایک بڑی پیش رفت تھی جو لائی سال 2009 میں سر کاری سطح پر قائم ہو نے والے بی زیڈ یو یو نیورسٹی بہادر سب کیمپس کا قیام لیہ اور تھل کی عوام کے لئے بہر حال ٹھنڈی ہوا کا ایک جھو نکا ثا بت ہوا ۔ بہادرسب کیمپس کے قیام کے بعد عوامی مطا لبہ یہ سا منے آ یا کہ اس بہادرسب کیمپس کی اپ گریڈ یشن کر کے اسے مکمل یو نیورسٹی کا درجہ دیا جا ئے اسی دوران پنجاب حکو مت کی طرف سے لیہ کروڑ روڈ پر بہادر کیمپس کے لئے ایک بڑا قطعہ اراضی مختص ایک بڑے میگا پراجیکٹ کی تعمیر کا آ غاز کیا گیا جو شاید تعمیر کے آ خری مراحل میں ہے ۔ نو سال بعد سا بق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف دورہ لیہ پر آ ئے اور انہوں نے لیہ میں بہادر کیمپس کو مکمل یو نیورسٹی بنانے اور خورشید انجینئرنگ کالج کے قیام کا اعلان کیا ۔ ان وعدوں کی تکمیل کے لئے بڑی تیزی سے کام شرع ہوا ۔ بی زیڈ یو سنڈیکیٹ سے بہدر یو نیورسٹی کے قیام کے لئے این او سی حاصل کیا گیا ، ہا ئر ایجو کیشن ڈیپارٹمنٹ سے بہادر یو نیورسٹی کے قیام بارے آ ئینی ، قانونی اورانتظامی معاملات و خدو خال بارے رپورٹ طلب کی گئی اور آ خر اس وقت کی وزیر خزانہ عائشہ غوث کی صدارت میں ہو نے والے ایک اجلاس میں بہادر کیمپس لیہ اپ گریڈیشن آف بہادر سب کیمپس بی زیڈ یو لیہ ٹوبہادریو نیورسٹی لیہ اور خورشید انجینئرنگ کالج لیہ کے قیام کی شفارشات منظور کیں ۔ اب مرحلہ صرف کیبنٹ میٹنگ میں منظوری لینے ہو ئے اور بجٹ اجلاس میں شا مل کر نے کا تھا ۔
المیہ یہ ہوا کہ سیاسی حالات اس قدر خراب ہو ئے کہ پنجاب حکو مت کو یہ مواقع مل ہی نہ سکے ۔ اور یوں یہ بہادر یو نورسٹی کا یہ اہم مسئلہ لٹک گیا ۔ہو نے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن ہار گئی اور زمام اقتدار تحریک انصاف کے ہاتھ میں چلی گئی ۔تبدیلی کے نام پر آ نے والے انقلاب سے یہ توقع ہو چلی تھی کہ اب نہ صرف پرانے زیر تکمیل میگا پراجیکٹ مکمل ہوں گے بلکہ بر سوں کی محرو میوں پر بھی مرہم رکھا جا ئے گا لیکن اے بسا کے آروز خاک شد کے مصداق ۔۔ وہی روائتی رویے اور وہی روائتی انداز سیاست لگتا ہے کہ آج کی انقلابی سوچ کا بنیادی محور بھی یہی نکتہ قرار پا یا کہ دوسروں کے نام کی تختیاں اکھا ڑو اپنے نام کی تختیاں لگا ئو ۔ شا ید یہی سبب ہے کہ ماسوائے لیہ تو نسہ پل کی تعمیر کے کہ یہ ان کی دسترس سے با ہر ہے سبھی زیر تکمیل منصوبے یا تو بند ہو چکے ہیں یا پھر انتہائی سست روی کا شکار ہیں ۔ ہو نا تو یہ چا ہیئے تھا کہ نو منتخب ایم پی اے بہادر کیمپس کی اپ گریڈیشن کی بند فائل کی پیروی کرتے مینٹنگ میں منظور کراتے اور بجٹ اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ بنا کر بہادر یو نیورسٹی کا گفٹ لیہ کی عوم کو دیتے لیکن افسوس ایسا کچھ نہں ۔۔ میڈیا ذرائع کے مطا بق ایم پی اے گیلانی صاحب طرف سے وزیر اعلی کو دی جانے والی درخواست میں بہادر یو نیورسٹی کانام تبدیل کرکے سائوتھ پنجاب یو نیورسٹی رکھنے کی تجویز دی گئی ہے ، اب مو جودہ بجٹ میں یو نیورسٹی بنتی ہے یا نہں یہ تو مجھے پتہ نہیں لیکن اتنا اندازہ ضرور ہے کہ اپنے گیلانی صاحب کی طرف سے دی گئی نام تبدیلی کی یہ درخواست ایک نئی فائل کا پہلا صفحہ ضرور ہو گا اور فائلوں میں لگی درخواستں فیصلہ بننے میں کتنا وقت لیتی ہیں اس کا اندازہ ضرور لگا یا جا سکتا ہے۔