تحریر : ثوبیہ امجد، ملتان آج کا دور تعلیمی دور ہے پہلے زمانے میں گھر کام اور پیٹ کو بھرنے کے لئے دو وقت کی روٹی کے لئے تگودو ہی زندگی کا حصہ تھی۔ قرآن کی تعلیم نمازِ، روزہ، حج سب امور سکھائے جاتے تھے تبھی لوگ ایمان دار سادہ لوح تھے پہلے کے لوگ دین کو نظام زندگی سمجھتے تھے لیکن آج کے دور میں ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نام ہی کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ ہم نے دین کو نظام حیات سمجھنے کی بجائے جزوحیات بنا لیا ہے ہمارا مقصد صرف اور صرف اگے بڑھنا ہے۔ دولت کے انبار کھڑے کرنے ہیں۔ اس کےلئے چاہے اسلام کی دھجیاں بکھیر دی جائیں چاہے اسلام کے نام پڑھ کر سب کچھ بھول جائیں چاہے جائزو ناجائز ذرائع استعمال کر کے دنیاوی تعلیم کو ہر قیمت پر حاصل کرنا اور اپنے بچوں میں شروع سے ہی انگریزی طرز کی کتابوں کی طرف مرکوز کرنا ان کتابوں کو اندھادھند بچوں پر مسلط کرنا جیسے ہمارے فرائض میں سے ایک ہے لیکن اسلامی تعلیم کی طرف بڑھنا اسکی طرف رجحان پیدا کرنا ہمارے مقصد کا حصہ نہیں رہا۔
ہمارے اسلام میں نماز روزہ حج فرض کرنے کا معقصد یہ تھا اس سے ہمارے مومنین لوگ ایک ساتھ پروان چڑھتے ہوئے برائی کے خاتمے کے لئے ایسی قوت پیدا کریں جو اک چٹان بن جائے۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں اسلام ایک مکمل دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتا ہے لیکن ہم اسے کہیں دور پیچھے چھوڑنے کےلئے تیار ہیں۔ میری تو یہ سمجھ نہیں آتا جو اسلام دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم پر بھی عمل کرنے کی غوروفکر کرنے تگودو کرنے کے لئے بار بار دعوت دیتا ہے۔
Quran
قرآن پاک جو اسلامی تعلیم معاشی، معاشرتی، سیاسی ، ثقافتی ، تمدنی غرض ہر پہلو پر مکمل رہنمائی کرتا ہے حتیٰ کہ دنیاوی تعلیم کے تمام پہلو بھی اسی میں موجود ہیں۔ ہر لحاظ سے مکمل ضابطہ حیات ہے.پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو دین اسلام حیات زندگی ہے جو بچوں کے اندر پروان چڑھانا ہمارے اولین فرضوں میں شامل ہونا چاہئیے اسلامی تعلیم ہمارے بچوں کو ایک پختہ انسان بناتی ہے .اس سے روگردانی کیوں ؟
اپنا دین بھلا کر مغرب کی اندھی تقلید میں بڑھ چڑھ کر حصہ کیوں لے رہے؟ آخر ایسی کیا وجہ ہے جو ہم مغربی کلچر انگریزی تعلیم پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں ؟ آخر کیوں ؟؟ ہے کوئی جواب ہمارے پاس؟ اسلام پر ہی ختم نہیں ہونا چاہئیے میں یہ نہیں کہتی کہ دنیاوی تعلیم روک دی جائے لیکن ایک دائرے میں رہ کر حاصل کرنی چاہئیے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ اسلامی تعلیم بھی ہماری ترجیح میں شامل ہونی چاہئیے۔ یہی ہماری اور ہماری نسلوں کی ترقی کا ذریعہ ہے ´َ۔ یہ سب مسلسل بولتی رہی جیسے رکنا تو سیکھا ہی نہیں تسلسل کے ساتھ بولتے بولتے وہ رکی آخر کار میں نے پوچھ ہی لیا تم یہ بتاو ¿ اتنا سب بول رہی ہو آخر ماجرہ کیا ہے تب وہ دھیمے لہجے میں مزید گویا ہوئی ہمیشہ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو دین سے دور پائے جاتے ہیں۔ لیکن آج میں نے ایک ایسے انسان کو دیکھا جس نے اپنے بیٹے کو دینی تعلیم کے نزدیک بھٹکنے بھی نہیں دیا جوکہ درست راستہ تھا۔ صرف مغربی طرز کی دنیاوی تعلیم کی طرف لگا رہا بچہ بڑا ہوگیا ایک بہت کامیاب انسان بنا لیکن اسکی وہ تعلیم کسی کام نہیں آئی اسکی موت کا وقت قریب تھا وہ کہہ رہا تھا یہ سب ڈگریاں میرے کس کام کی ہیں؟ جو اصل تعلیم تھی جو میری اگلی زندگی کی نعمتوں کی ضمانت تھی وہ تو ہے ہی نہیں میں خالی ہاتھ جارہا ہوں یہ ڈگریاں آپ ہی کو مبارک ہوں۔ وہ اپنے والد کو حقیقت کا ادراک کراکر اس دنیا سے کوچ کر گیا۔
لیکن بوڑھا باپ جس کی بوڑھی ہڈیوں میں مزید دم نہیں تھا وہ خالی ہاتھ رہ گیا . اب پچھتانے سے کیا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ وہ خاموش ہوئی تو میں سوچنے پر مجبور ہو گئی وہ غلط کیا بول رہی تھی؟ حقیقت ہی تو تھی جب بار بار قرآن پاک کو سمجھنے کی طرف بلایا جاتا ہے بتایا جاتا ہے تب کیوں دور بھاگتے ہیں؟ یہ کیوں بھول جاتے ہیں رب کو بھولنے والے کو وہ خود بھی بھلا دیتا ہے ہم اسکی پرواہ نہیں کریں گے تو وہ بھی کرنا چھوڑ دے گا۔ ہم گڑ گڑا کر اچھا مستقبل نہیں مانگیں گے تو وہ بھی نہیں دے گا۔ جب اس انسان کو اتنی تکلیف سزا کے طور پر مل سکتی ہے تو کوئی اور کیوں اسکی زد میں آئے گا ضرور آئے گا ہماری بھول ہے کہ ہم اسکی پکڑ میں کیوں نہیں آ سکتے اسکی پہنچ سے دور ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے جتنا وہ بے نیاز ہے جتنی اس نے ہماری رسیاں ڈھیلی چھوڑی ہیں۔ وہ پکڑ بھی سکتا ہے جیسے اپنے اذن ہمارے جسموں میں روح پھونکی ہے وہ اتنی آسانی سے ہمارے جسموں سے ہمیں تڑپا تڑپا کر نکال بھی سکتاہے۔
Muslim Riginal
تو جس نے ہمیں اتنی نعمتیں دی قرآن جیسی مکمل کتاب دی جس کے مقابلے کی چند آیات بھی بنانے سے عرب وعجم عاجز رہے۔ جسکا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی ہے۔ اسے بھلا کر مغرب کو تر جیح دے رہے ہیں ہمارا تو مقصد حیات ہی یہ ہونا چاہئیے قرآن، اسلامی تعلیم اسکے بعد دنیاوی زندگی کی تعلیم کو ترجیح دینی چاہئیے۔ ہمارا انداز بیان قرآن سے اسلام سے شروع ہو کر قرآن اوراسلام پر ہی ختم نہیں ہونا چاہئیے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ دنیاوی تعلیم روک دی جائے۔ لیکن ایک دائرے میں رہ کر حاصل کرنی چاہئیے دنیاوی تعلیم کے ساتھ اسلامی تعلیم بھی ہماری ترجیح میں شامل ہونی چاہئیے یہی ہماری اور ہماری نسلوں کی ترقی کا ذریعہ ہے۔ ترجمہ. کیا وہ نہیں دیکھتے ، کیا وہ غور نہیں کرتے ، کیا وہ تدبر نہیں کرتے؟
تحریر : ثوبیہ امجد، ملتان Writer Club (Group) Email: [email protected] Mobile No: 03136286827