تحریر : اقراء ضیاء چند روز قبل کسی ضروری کام سے اپنی دوستوں کے ہمراہ جامعہ کراچی کے ایڈمن بلاک جانے کا اتفاق ہوا. جبکہ خوش قسمتی کی بات یہ تھی کہ اتفاق سے ہمارا کام جلد ہی ختم ہو گیا اور ہم ایڈمن بلاک کے باہر اپنی ایک دوست کے انتظار میں کھڑے ہو گئے. چونکہ ابھی وہ کام کے سلسلے میں ایڈمن بلاک کے اندر ہی موجود تھی کہ اچانک ایک ادھیڑ عمر شخص ہماری جانب متوجہ ہوئے اور سلام کیا. سلام دُعا کے بعد انہوں نے ہم سے ہماری موجودگی کی وجہ دریافت کی اور آخر میں کچھ یوں کہتے ہوئے رخصت ہوئے کہ اگر آپ کو ایڈمن بلاک میں کسی بھی قسم کا کام ہو تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں. کام کے لئے صرف ٥٠٠روپے درکار ہونگے اور بس آپ کا کام صرف چند منٹوں میں مکمل ہو جائے گا. یہ الفاظ کہتے ہی وہ وہاں سے رُخصت ہو گئے اور میں اُنہیں اپنی نظروں سے اوجھل ہونے تک افسوس کُن نظروں سے تکتی رہ گئی.اس منظر نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر پاکستان کا ہر ایک ادارے میں رشوت خوری کا بازار کیوں گرم ہے ؟جس کے باعث کرپشن اداروں کا مقدر بنی ہوئی ہے.
اس کے علاوہ جب کبھی کراچی بورڈ آفس جانے کا اتفاق ہو تو وہاں بھی ایسے ہی رشوت خور دکھائی دیتے ہیں. جو صرف چند روپیوں کی خاطر لوگوں کو کئی گھنٹوں ٫ دنوں اور مہینوں کی خواری سے منٹوں میں نجات دلانے کے لئے ہر وقت تیاررہتے ہیں. اس کے بعد منظر کچھ یوں دکھائی دیتا ہے کہ غریب لوگ گھنٹوں لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے کے باوجود کام مکمل ہونے سے محروم رہ جاتے ہیں. مگر چند لوگ صرف پیسے کی بِنا پر گھنٹوں کی خواری کے بجائے چند منٹوں میں اپنا کام مکمل کروالیتے ہیں. یوں کہنا بہتر ہوگا کہ اس دور میں پیسے کی طاقت سے لوگوں کو آسانی سے خریدہ جا سکتا ہے.
حدیثِ مبارکہ ہے کہ: ”رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں”
بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ حضور ۖ کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی عمل کرنے کی نصیحت کریں.مگر افسوس اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہر ایک ا ِدارہ رشوت جیسی لعنت کا شکار ہے. یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے دکھائی دیتا ہے. ہماری نوجوان نسل جس راستے پر گامزن ہے اور جس معاشرے میں اس نے آنکھ کھولی ہے. اُس معاشرے میں کرپشن کا بول بالا ہے . یہاںتو چند روپیوں کی خاطر ایمان تک کوبیچ دیا جاتا ہے.
جبکہ پاکستان شماریات بیورو)پی بی ایس(نے قومی اسمبلی کے سامنے انکشاف کیا ہے کہ اِس وقت ملک کے پانچ لاکھ گریجویٹ نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں. رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبہ پنجاب میںکل3لاکھ 10ہزار گریجویٹ نوجوانوں کی سب سے بڑی تعداد پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خودکشی کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ہم نے اب تک بے شمار قیمتی جانوں کوبے روزگاری کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے ہوئے دیکھا ہے. چونکہ آج گورنمنٹ کے اِداروںمیں ملازمت کے لئے نوجوان نسل کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں اُنہی لوگوں کا اِدارہ انتخاب کرتا ہے٫ جو رشوت یا سفارش کے توسط سے ملازمت حاصل کرتے ہیں.جو لوگ گورنمنٹ میں ملازمت کے خواہش مند ہوتے ہیں . اُن کی خواہش اُس وقت تک پوری نہ ہوگی٫ جب تک یہ نظام تبدیل نہ ہوگااورحقیقت تو یہ ہے کہ چند اقتدار پسند لوگوں کی بدولت غریب کے حق کو چھینا جاتا ہے اور اُسے یہ بتایا جاتا ہے کہ اس معاشرے میں سانس لینے کے لئے اس کے پاس پیسے کی طاقت ضروری ہے . ورنہ اس کے لئے اس معاشرے میں رہنا انتہائی مُشکل ہے.
کہتے ہیںجس معاشرے میں پیسے کی پُوجا کی جاتی ہو٫ ہر بُرے فعل کو اچھا سمجھا جاتا ہواور حلال کے بجائے حرام کمایا جاتا ہو. اُس معاشرے کا مقدر تباہ و بربادی کے سوا کچھ نہیں. اسی وجہ سے آج چند اقتدار پسند لوگ لاکھوں اور کڑوڑوں روپے دیتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے. چونکہ ان کے لئے رشوت دینا اِک عام سی بات لگتی ہے اور ان کا ہر کام باآسانی ہو جاتا ہے .ہمیں اس معاشرے کے نظام کو ہر صورت بدلنا ہوگااور یہ نظام اُس وقت تبدیل ہوگا . جس وقت اقتدار پسند لوگ اپنی زمہ داری کو بھرپور طریقے سے سمجھیں گے اور رشوت جیسی لعنت سے خود کو دُور رکھیں گے. تو ممکن ہے کہ اس ملک میں رہنے والا ہر شخص بحیثیت اس ملک کا شہری ہوتے ہوئے اپنا حق حاصل کر سکے.