تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ہمارے چاروں اطراف زہریلے سانپوں کے ڈیرے اور بسیرے ہیں مگر ہم جاگتی آنکھوں سے دیکھ نہیں پاتے ملازم ہو یا کوئی دوسرا شخص رات کو سوچتا اور پلان بناتا ہے کہ صبح کو فلاں سے ٹھگی مارنی ہے فلاں شریف آدمی ہے اس سے رقم لیکر واپس نہیں کرنی فلاں بہن بھائی یہاں سے چلے گئے ہیں ان کی یہاں موجود زمین میں سے میں اتنی باآسانی ان کے جعلی دستخطوں/ جعلی اسٹامپ پیپرپر پٹواری /تحصیلدار کو رشوت دے دلا کر اپنے نام منتقل کروا کر اسے بیچ ڈالوں تو اتنے لاکھوں کروڑوں کا مالک بن سکتا ہوںاور دور بیٹھا اس کا وہی بہن بھائی رات کو یہی سوچ رہا ہوتا ہے کہ گذارا مشکل سے ہو رہا ہے اس دور افتادہ زمین مکان کو جھوٹ موٹ کے ذریعے زیادہ قیمت دکھا کر بینک منیجر سے کچھ دے دلا کر قرضہ نکلوائوں اور دوبارہ واپس نہ کروں وہ جائدادقرق کرلیں گے وہ تو لا محالہ اس سے کم قیمت کی ہے اس طرح دفاتر میں کلریکل سٹاف اور دوسرے ملازم افسران تک چھریاں گنڈاسے تیز کیے ہوئے لیکر بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی بھی آن پھنسے ہم نے اس کی کھال اتار ڈالنی ہے اس سے ڈھیروں رقوم لیے بغیر اسے واپس نہیں جانے دینا اسی طرح بیرون ممالک جعلی طورپر باہر بھجوانے والے گھوم رہے ہیں کہ کسی آسامی سے مال ٹھگ لیں اور وہ بھلا آدمی ہمارے گھروں کے چکر لگا لگا کر بالآخر تھک ہار کر بیٹھ جائے گا اگر کسی عدالت وغیرہ میں گیایا تھانہ کا رخ کیاتو عدالت میں بحرحال وکیل کو دے دلا کر اس کا فیصلہ ہی اس کی زندگی میں نہ ہونے دیں گے اور تھانے تو ویسے ہی”اس بازار “کی طرح ہوچکے کہ جو زیادہ مال لگائے گا رانی بی بی اس کی ہو چلے گی زرداری اور شریفوں نے پہاڑوں کی اونچائی سے بھی بڑی کرپشن کر لی۔
زرداری نے سرے محل سوئس اکائونٹس بیرون ممالک فلیٹس جائدادیں محلات بنا لیے سندھ کی نوے فیصد شوگر ملوں پر خرید کی آڑ میں قبضہ کرلیا آپ اور ہم نے کیا کرلیا ؟وہ پاکستان کے دوسرے بڑے سرمایہ دار بن گئے اور چند ماہ سالوں میں دنیا کے امیر ترین اشخاص کی صفوں میں شامل ہو چکا ہو گا آپ کا کیا لینا دینا؟ شریفوں نے ایک مل سے درجنوں ملیں بنالیں جاتی امراء میں ایمپائر کھڑی کرلی بیرون ممالک ملیں فلیٹس خریدے اور پانامہ لیکس میں اربوں ڈالر جمع کرلیے کوئی احتسابی کمیشن نیب عدالتیں بیرون ممالک کے مقدمے ان کا کیا بگاڑ سکے اور بگاڑ بھی کیسے سکتے ہیں کہ ہمارا پورا معاشرہ ہی دیکھا دیکھی کرپشن زدہ سا محسوس ہونے لگا ہے نودولتیے سود خور سرمایہ دار بھی غریبوں اور مزدوروں کا خون چوس رہے ہیں غرضیکہ ہم میں سے ہرآدمی اب انسان کم اور زہریلا سانپ زیادہ بن چکا ہے ہم ناشتہ کرکے گھروں سے سانپوں کے روپ دھارے نکلتے ہیں ہر دوسرے چھوٹے سانپ کو نگل ڈالنے کی سعی و تگ و دو کرتے ہیں۔
کئی بار تو ایسا ہوا ہے کہ تھانیدار نے کسی کی جیبیں خالی کرلیں بھاری رقوم اینٹھ لیں اور دور رہتے گھر والوں کو بھیج دیں اور آپ صاحب کی غیر موجودگی میں صاحبزادہ چونکہ شراب و کباب اور” اس بازار” کا گاہک بن چکا ہوتا ہے تو وہ ساری حرام کی کمائی ان “پاکیزہ “کاموں میں لٹاتا رہتا ہے کہ”مال حرام بود بجائے حرام رفت” والا محاورہ فٹ آجاتا ہے کہ حرام کا مال تھا حرام کاموں میں چلا گیا اگر” اس بازار” کی ڈانسر بھی تماش بینوں کی جیبوں سے مال نکلواتی ہے تو کسی روز اس کی اس “کمائو دکان “پرکوئی چور ڈاکوپہنچ کر وافر حصہ لے جاتا ہے متعلقہ تھانہ والوں اور علاقائی غنڈوں /بھتہ خوروں کو بھی معقول رقم دینی پڑتی ہے وگرنہ آسانی سے تیزاب پھینک کر شکل ہی بگاڑ ڈالیں گے سڑکوں پر چلتی ٹرانسپورٹ بسوں کاروں کو ڈاکو لوٹتے ہیں تو انہیں کسی تھانے میں طے شدہ حصہ دینا ہوتا ہے کہ “چوری ڈکیتی ہو ہی نہیں سکتی کہ جب تک اس میں تھانیدار کا حصہ نہ ہو” بقیہ میں سے کچھ کھایا پیا گیا”اس بازار” کی ڈانسر کو دے آئے جب پکڑے گئے تو کچہریوں کی بھاری فیسوں اور تھانوں میں مقدمات کی “درستگی “کروانے کی” اعلیٰ اقدار ” کی نذر ہو گیا غرضیکہ ہم سبھی انسان زہریلی دو مو نہی سپنی کا روپ دھارے ایکدوسرے کی جیب تراشیوں یا دوسرے لفظوں میں ایکدوسرے کو ڈسنے اس کا مال چھیننے کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں کچھ مال پانی بن گیا مگر کسی تھانے کچہری میں چِھن گیااس طرح نتیجتاً ہم خالی جیبوں گھروں سے نکلے تھے اور خالی جیبوں ہی جاکر بسترپر لیٹے پھر صبح کے لیے پلاننگ میں مصروف ہو جاتے ہیں کہ زرداری اور شریفوں جیسے کردار ہمارے لیے”مشعل راہ “بنے ہو ئے ہیں کہ وہ سینمائوں پر ٹکٹیں بلیک کرنے اور لوہا کوٹنے والے افراد کیسے ملک کے دوسرے اور چوتھے بڑے سرمایہ دار بن گئے ہم بھی کوئی ایسی ہی “واردات “کریں اور ڈھیروں مال کے انبار اکٹھے کرلیں اسی لیے ہر شخص “سیاسی کھیل تماشہ ” میں شامل ہو کر ممبر وغیرہ بن کر انہی کی طرح لٹیروں کا کردار ادا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
سیاست تو الو کی آنکھ سے دیکھنے اور گِدھوں کی طرح جھپٹنے والا عمل بن چکی کہ نام نہاد سیاسی راہنمااسی طرف کا رخ کرلیتے ہیں جہاں انہیں مال بنانے کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل ہوسکیں اس کرپشنی دکان کے دائرے میں ٹھگ لٹیرے گھوم رہے ہیں جو دوسروں کو بالخصوص عوام کے لیے لوٹنے کے نئے حربے /طریقے ایجاد کرلیتے ہیں 70سال سے ڈگڈگی بج رہی ہے اور بند ر انتہائی خوشیوں سے ڈانس کرتے جھوم رہے ہیں کہ میرا کسی نے کیا بگاڑ لینا ہے آخر کچہریوں تھانوں میں بھائو تائو لگا کر چھوٹ ہی جانا ہے صرف پسے ہوئے طبقات کے لوگ اللہ اکبر اللہ اکبر اور ختم المرسلین ۖ کی ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں نکلیں گے اور آمدہ انتخابات میں اپنا مثبت کردار ادا کرڈالیں گے ” نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری”کہ پہلے قربانیاں پھر اصلاحی انقلاب اور امن و سکون کا دور زریںجس میں غربت بیروزگاری ،دہشت گردی ،مہنگائی کا مکمل خاتمہ ہو گا انشاء اللہ۔