ہمارے یہاں رشوت اور بدعنوانی کا رحجان اس قدر زیادہ رہاہے کہ بہت سے افسران اور کچھ سیاستدان رشوت اور بدعنوانی کے زریعے کمائے گئے پیسوں کو چھپانے کے لیے کسی اور کے ناموں سے بینک اکاؤنٹس بناتے رہے اور اسی طرح دوسرے ناموں کے ساتھ جائیدادوں کو بنایاجاتارہاہے، ان بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادوں میں نام تو کسی اور کا ہوتاہے مگر استعمال کسی اور کا۔آجکل جو دوست احباب نامی اور بے نامی کے ہیر پھیر کو سمجھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں یہ مثال ایسے ہی دوستوں کو سمجھانے کے لیے پیش کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں شریف فیملی اور زرداری فیملی اور ان کے قریبی ساتھیوں نے بے نامی کا سہارالیکرلوٹی ہوئی دولت کو چھپایاان سیاستدانوں کے پاس بینک اکاونٹس شوگر فیکٹریاں اور ناجانے کس کس چیز کے کاروبار اور اس کے علاوہ وہ جائیدادیں موجود ہیں جو ملک کے اندر اور ملک کے باہر موجود ہیں اب ان سب کا کٹھاچٹھہ کھل چکاہے،یہ لوگ ہمیشہ خود کو غریب کا ہمددر اور مسیحاقراردیتے رہے مگر ان شخصیات کی حرکتوں کی وجہ سے ملک اور قوم غربت اور اقتصادی ناہمواریوں کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔
آج جب عمران خان کی حکومت نے اس قسم کی مالی غلط کاریوں کو روکنے لیے احتساب کا عمل شروع کیا ہے تو اس پر ایسے میں اب ان تمام کرپٹ لوگوں کی چیخیں آپ باآسانی سن سکتے ہیں، یہ لوگ خود کو بچانے کے لیے مہنگائی اور بے روزگاری کاالارم لگاکرقوم کو ورغلانے میں مصروف ہیں مگر ان تمام ناکام حربوں کے باوجود پوری قوم کو ایک امید ہوچلی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے قوم کی جو لوٹی ہوئی دولت کو واپس لینے کا وعدہ کیا تھاوہ مستقبل قریب میں ضرور پوراہوگا،کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت نے جس انداز میں چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف اپنا گھیراتنگ کیاہے وہ سب عوام کی بہتری کے لیے ہی کیا جارہاہے لہذاعوام کو بھی کچھ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی کوششوں کی بھرپورحمایت کرناہوگی اور ان چوروں کی ہرزہ سرائیوں سے خودکو دوررکھنا ہوگا جو انہیں بڑھکانے میں مصروف ہیں،کیونکہ اس ملک میں جو تھوڑے بہت پریشانیوں کے بادل موجود ہیں وہ سب کے سب عارضی اور جلد چھٹنے والے ہیں۔
گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ میں وزیراعظم کے مشیر برائے کفایت شعاری ودارہ جاتی شفقت محمود نے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے دور کے سیرسپاٹوں کی تفصیلات پیش کی ہیں جس میں ان افراد کی پرتعیش زندگی کا حال واحوال پڑھ کر سنایا گیاجو یقیناعوام کو بتانا بھی بہت ضرروی ہے میڈیا رپوٹس کے مطابق ان دونوں صاحبان کی غیر ملکی دوروں کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ ان حضرات کے سیر سپاٹوں پر 300ارب روپے کے اخراجات ہوئے زرداری صاحب نے2008اور2013کے درمیان اپنے پانچ سالوں میں 134 غیر ملکی دورے کیئے جس میں 1ارب 42کروڑ خرچ ہوئے ان دوروں میں اپنے ساتھ رکھے گئے وفود کی تعداد3227افراد بنتی ہے،جبکہ یہ بھی معلوم ہواہے کہ زرداری صاحب کے شاہانہ طورطریقوں کی لاج رکھنے کے لیے 6کروڑ روپے کی ٹپس اور45کروڑ کے تحفوں تحائف کے زریعے ان کا صدقہ بھی اتار اگیاہے،سابق صدر کے 59دورے بیرون ملک نجی ٹرانزٹ کے تھے جبکہ 48دورے غیر ضروری اورزاتی نوعیت کے تھے جن پر کروڑوں روپے کے اخراجات لگے،جبکہ نوازشریف صاحب بھی اپنے چار سال کے عرصے میں زرداری صاحب کے مقابلے میں کسی بھی لحاظ سے کم نہ تھے انہوں نے 92 غیر ملکی دورے کیے۔ جس میں 1ارب83کروڑ خرچ ہوئے انہوں نے2013-17تک دل کھول کر عوام کے پیسوں پر سیر سپاٹے کیئے،انہوں نے بھی اڈھائی ہزار کے قریب وفود کو اپنے ساتھ سیر سپاٹوں میں شریک رکھا اور خوش آمدیوں پر عوا م کے 183کروڑ روپے ہوا میں اڑادیئے نوازشریف صاحب نے لندن کے 24دورے کیئے جن میں سے 20دورے زاتی یعنی پرسنل نوعیت کے تھے،جو کہ اشارتاً لندن فلیٹ اور دیگر مال واسباق کی رکھوالی کے لیے تھے جس پر 22کروڑ سے زائد کے اخراجات آئے نوازشریف صاحب نے سعودی عرب کے 12دورے کیے جس میں 17کروڑ روپے لگے،اور موصوف نے زرداری صاحب کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے 3کروڑ روپے اپنا صدقہ اتارنے کے لیے بطور ٹپ کے اور6 کروڑ روپے کے تحفے تحائف بھی تقسیم کیے جو زاتی جیب سے نہیں تھے بلکہ عوام کی خون پسینوں کی کمائی کے پیسے تھے اسی طرح چین کے بھی بے تحاشہ دورے کیے جن پر غیر ضروری معاملات پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے کا چونا لگادیاگیا اور جناب محتر م نوازشریف صاحب نے اپنے جس جانشین شاہد خاقان عباسی کو اپنے بعد وزرات عظمیٰ پر بٹھایاباقی کسر انہوں نے نکال دی تھی۔
یہ تمام باتیں یہاں ان لوگوں کے لیے لکھنا ضروری ہیں جو یہ جانناچاہتے ہیں کہ عمران خان کیاکررہاہے اور کس لیے اس ملک کو لوٹنے والوں کا احتساب کرنا چاہتاہے اس ملک میں جو مہنگائی کے بادل چھائے ہوئے ان کی تمام تر وجوہات بھی یہ ہی ہے، عمران خان نے جب وزرات عظمیٰ کاحلف اٹھایا تو یہ تمام چیلنجزان کے سامنے تھے جن کے حل کے لیے عوام کو کچھ صبر کا گھونٹ ضرور پیناہوگااگر عوام نے آگے بڑھ کریہ چند دن اپنے اوپر سہہ لیے اور یہ تہیہ کرلیا کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں ہم وزیراعظم عمران خان کاساتھ دینگے تو وہ دن دور نہیں ہیں جب اس ملک میں ہر طرف خوشحالی ہوگی اور عوام ہر لحاظ سے سکھ کاسانس لے سکیں گے۔ لیکن اس سے پہلے ایک سوال کیا عوام کو بھولنے کی عادت ہوچکی ہے؟عوام یاد کرے کہ کس کس انداز میں ان دو جماعتوں کے رہنمااور ان کے بچے پالنے کے لیے غریب اور ہاریوں کے بچوں کو قربان کیا جاتارہاہے عوام کے پیسوں سے عیاشیاں کرنے والوں نے قومی خزا نے سے دنیا بھرکے اکاؤنٹس کو بھرا دنیا بھر میں جائیدادیں بنائی غریب کا بچہ بھوک سے مرتارہااور حکمران اوران کی اشرافیہ کرپشن کے مال سے اپنے مستقبل سنوارتی رہے،اب عوام بتائے کہ کیا یہ ہی انصاف ہے کہ ایسے لٹیروں کو اسی طرح چھوڑ دیاجائے جیسے یہ ماضی میں رہاہوکر آتے رہے؟
عوام یہ بھی زرا سوچے کہ عمران خان کو آپ نے ووٹ کیوں دیا؟ اسی لیے نہ کہ اس نے آپ کا پیسہ چوروں اور ڈاکوؤں سے واپس لانے کا وعدہ کیاتھا آج جب ان لٹیروں کے محاسبے کے دوران عوام کو کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑہی رہاہے تو اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے آخر یہ سب کچھ اب عوام کی بہتری کے لیے ہی تو ہورہاہے۔آج نیب یا حکومت کی جانب سے شریفوں اور زرداریوں کے گردگھیرا تنگ ہورہاہے وہ کوئی زاتی انتقام کے تحت نہیں ہورہابلکہ یہ سب عوام کے خون پسینے کی کمائی کو واپس لانے اور ملک کو مزید نقصانات سے بچانے کے لیے ہورہاہے اور یہ سب کچھ پلک جھپکتے میں نہیں ہوگا اس سے کچھ پریشانیاں عوام کو بھی اٹھانا پڑیگی جو بہت کم اور وقتی معیاد کی ہونگی۔ختم شدہ
Haleem Adil Sheikh
تحریر: حلیم عادل شیخ ممبر سندھ اسمبلی۔پارلیمانی لیڈر تحریک انصاف سندھ