تحریر : طارق حسین بٹ شان پاکستان میں شب خونوں کی داستان کچھ عجیب نہیں ہے۔وقفے وقفے سے شب خون اس قوم کا مقدر بنتے رہے ہیں۔شب خونوں کو اگر چہ عدالتیں جائز اور قانونی قرار دے دیتی رہی ہیں لیکن پھر بھی عوام کے لئے ان کو جائز قرار دینا انتہائی مشکل ہے کیونکہ وہ صدقِ دل سے جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ گڈ گورنس کے فقدان سے عوام کے اذہان میں بے چینی اور اضطراب جنم لیتا ہے لیکن شب خون پھر بھی اس کا متبادل نہیں ہو سکتا۔شب خونوں سے بچائو کا بہترین طریقہ خود احتسابی، شفافیت اور قانون کی حکمرانی ہے جو ابھی تک پاکستان میں ناپید ہے جو طالع آزمائوں کو اقتدار پر قبضہ کا جواز مہیا کرتی ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔عوام بہتر مستقبل، قانون کی حکمرانی، احتساب اور جوابدہی کے سہانے سپنوں میں شب خون کا کڑوا گھونٹ پی جاتے ہیں لیکن نتیجہ وہاں بھی ڈھاک کے تین پات والا ہی نکلتا ہے۔جمہوریت اور وقفے وقفے سے شب خو نوں کے درمیان غریب عوام پس کر رہ جاتے ہیں اور ان کے سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں کیونکہ کوئی بھی ان کے مرض کا علاج نہیں کرتا۔ پچھلے چند سالوں سے کرپشن نے جس طرح پاکستان میں اپنے پنجے گاڑ ے ہیں اسے اکھاڑ پھینکنا جمہوری حکومت کے بس میں نہیں ہے کیونکہ حکمران خودکرپشن اور لوٹ مار کے الزامات کی زد میں ہیں۔
اسی پسِ منظر میں کچھ حلقے فوجی شب خون کی جانب اشارہ کر رہے تھے اور راحیل شریف کی ذات سے امیدیں واپستہ کر چکے تھے تاکہ کرپشن اور لوٹ مار کا یہ کلچر کسی طرح اپنے انجام کو پہنچے۔عمران خان کا دو نومبر کو اسلام آباد لاک ڈائون کرنے کا اعلان اس کلچر کو ختم کرنے کی ایک کوشش تھا ۔ملک میں ہر شخص اس دن بد امنی،انتشار اور خانہ جنگی سے خائف تھا اور اسے خدشہ تھا کہ دو نومبر کا یہ دھرنا پاکستان کی یکجہتی اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا باعث نہ بن جائے کیونکہ سرحدوں پر بھارت اپنی ریشہ دوانیوں سے پوری فضا کو مکدر کئے ہوئے تھا ۔موجودہ لمحے تک پانامہ لیکس نے جمہوری منظر نامے کو غیر یقینی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے اور کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس عدالتی جنگ کا انجام کیا ہو گا۔
مقتدر حلقوں کو اس عدالتی جنگ کی پشت پناہی کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جاتا ہے جو کہ کسی حد تک متعصبانہ سوچ ہے کیونکہ پانامہ لیکس پر عدالتی جنگ عمران خان کی اپنی سوچ کا شاہکار ہے اور وہی اس کے نفع و نقصان کا ذمہ دار ہے لہذا فوج کو اس میں گھسیٹنا جائز نہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ قوتیں جو میاں محمد نواز شریف کو زیرِ پا رکھنا چاہتی تھیں اب بھی طاقتور ہیں اور سدا طاقتور رہیں گی۔کیا پی پی پی دورِ حکومت میں نادیدہ قوتیں طا قتور نہیں تھیں؟یہ سچ ہے کہ راحیل شریف کے سیاسی عزائم نہیں تھے کیونکہ وہ وہ اپنے پیشروئوں سے بالکل مختلف تھے ۔جنرل راحیل شریف کے پاس تو کئی مواقع تھے جس میں وہ حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا کرنے کی بجائے جمہوری سوچ کو پروان چڑھایا۔وہ ایک پیشہ ور فوجی تھے اور ان کی اس پیشہ وارانہ سوچ نے فوج کو نیا حوصلہ اور احترام بخشا۔بہت سے سیاسی زعماء جنرل راحیل شریف کی منتیں کر رہے تھے کہ وہ پاکستان کو کرپشن اور لوٹ مار کی دلدل سے نکالنے کیلئے نواز شریف حکومت کو چلتا کریں لیکن انھوں نے کسی کی ایک نہ سنی بلکہ اپنی پیشہ وارانہ خدمات کی بجا آوری میں جٹے رہے۔ان کا خلوص اور عزم پاکستان کی نئی پہچان بن گیا۔
General Raheel Sharif
کوئی بھی فورم ہو جنرل راحیل شریف کے جرات مندانہ اقدامات کا حوالہ ایک حقیقت ہے۔جس گھر میں دو نشانِ حیدر ہوں اس گھر کی فوجی صلاحیتوں سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں ۔یہ سچ ہے کہ کچھ طالع آزما سیاستدان جنرل راحیل شریف کو اقتدار کی راہداریوں میں گھسیٹنے کی کوشش کر تے رہتے تھے لیکن انھوں نے ان کی باتوں کو در خورِ اعتنا نہ سمجھا بلکہ دھشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے مشن میں جٹے رہے جس کی وجہ سے پورا پاکستان ان کا دل و جان سے مشکور ہے اور جب تک راحیل شریف زندہ ہیں یہ احترام قائم رہیگا۔انسان ایک دفعہ ہیرو بن جائے تو پھر اسے ہیرو شپ کی مسند سے ہٹانا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہوتا۔،۔ بھارت کو علم ہے کہ پورا پاکستان جنرل راحیل شریف کی ایک آواز پر لبیک کہنے کیلئے تیار ہے لہذا وہ اپنے جنگی جنون کو رو بہ عمل لانے میں لیت ولعل سے کام لے رہا ہے۔وہ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتاہے لیکن اس کا دل اس کے سینے میں اٹک گیا ہے کیونکہ بھارتی قیادت پاک فوج کی بہادری کی عینی شاہد ہے ۔بھارتی حکومت جس طرح جنرل راحیل شریف سے خائف ہے وہ سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ بھارت کو علم ہے کہ پاکستانی قوم ایک جسدِ واحد کی طرح ہے جسے جنرل راحیل شریف نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں بدل دیا ہے اور جسے توڑنا بھارت کے لئے ممکن نہیں ہے۔یہ سچ ہے کہ بھارت پاکستان سے چھ گنا بڑا ملک ہے،اس کی فوجی قوت بھی چھ گنا بڑی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس کے قدم ڈگمگا رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں قومی یکجہتی کا جو مظاہرہ دیکھنے میں آیاتھا اسے دنیا کی کوئی فوج شکست نہیں دے سکتی۔
ایٹمی قوت ہونا اپنی جگہ اہم ہے لیکن پاک فوج کے جوانوں کی موت کو دیوانہ وار گلے لگانے کی خواہش ہی در اصل جنگ نہ ہونے کی بنیادی وجہ ہے۔بھارت کو علم ہے کہ اگر پاکستان ایٹمی جنگ سے تباہ ہو سکتا ہے تو پھر بھارت بھی صفحہِ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹ سکتاہے۔یہی وہ بات تھی جسے ١٩٨٧ میں جنرل ضیا الحق نے اپنے بھارتی دورے پروزیرِ اعظم راجیو گاندھی کو سمجھانے کی کوشش کی تھی اور اسے سمجھ آ گئی تھی۔یہ خبر سن کر تو اس کا برا حال ہو گیا تھا اور اس کا چہرہ پسینہ سے شرا بور ہو گیا تھا۔خوف کی پرچھائیں اس کے چہرے پر اڑ رہی تھیں اور وہ خود کو سنبھال نہیں پا رہا تھا ۔اسی طرح کا خوف جنرل راحیل شریف کی ذات سے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو بھی ہے جس کی علامتیں ہم اکثر دیکھتے رہتے ہیں۔،۔
١٩٧٠ کے عشرے میں امریکہ اپنی بے پناہ قوت کے باوجود ویت نامیوں کو شکست سے دوچار نہ کر سکا تھا تو اس کی وجہ ہوچی منہ کی وہ پر عزم قیادت تھی جس نے ویت نامیوں کے سینوں میں آگ بھر دی تھی۔امریکہ نے بڑا زور لگا یا لیکن اسے پھر بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یک مشت اور متحد ویت نامیوں کو شکست دینا اس کی بساط سے باہر تھا۔اپنی بے مثال قیادت کی وجہ سے ہوچی منہ آج بھی دنیا میں حریت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔قومی امنگوں کا ترجمان بننا انتہائی ،مشکل کام ہوتاہے کیونکہ اس تمغہ کو سینے پر سجانے کے لئے ذاتی خوا ہشات اور اغراض کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ مال و دولت کی ہوس سے دل کو روکنا پڑتاہے اور اپنی نگاہیں قومی مفاد پر مرکوز کرنی پڑتی ہیں۔
Pak Army
انسان خواہشات کا غلام بن جائے تو اس میں گن گرج باقی نہیں رہتی،اس کی آواز بے اثر ہوجاتی ہے ، اس میں جراتِ اظہار کا فقدان ہو جاتاہے ،اس میں اعلی اوصاف عنقا ہو جاتے ہیں ،اس کی صفات کو گرہن لگ جاتاہے،اس کی لیڈر شپ کو زوال آ جاتاہے ،اس کی بات میں دم خم باقی نہیں رہتا،لوگ اس کے احکامات کی عمل داری اور پیروی سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں ۔ و ہ جو کچھ کہتا ہے خالی الفاظ کا ورد رہ جاتا ہے اور وہ خود عوام کے دلوں سے نکل جاتا ہے۔جنرل راحیل شریف الفاظ کا غازی نہیں بلکہ کردار کا غازی ہے اور عوام اس کی ایک آواز پر لبیک کہنے کیلئے بے تاب ہیں۔ جو جنرل اگلے مورچوں پر اپنے جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کو اپنا اولین مقصد قرار دے لے اس کی فوج کو دنیا کی کوئی طاقت شکست سے ہمکنار نہیں کر سکتی۔
جنرل راحیل شریف نے فوج میں جو عقابی روح پھونکی ہے اسے آنے والاکوئی بھی جنرل ماند نہیں کر پائیگا ۔ فوج راحیل شریف کا نام نہیں بلکہ فوج سپہ سالار کے عطا کردہ عزم کا نام ہے ۔٢٩ نومبر کو جنرل راحیل شریف کی ریٹائر منٹ کوئی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ جنرل راحیل شریف ہر فوجی جوان کے اندر ایک نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ موجود رہیگا ۔اس دنیا آنا جانامعمول کے واقعات ہیں لیکن وہ انسان جو کسی ہدف کی علامت بن جائے ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتا ہے اور جنرل راحیل شریف ایک ایسا ہی جری سپوت ہے جو ہر دل میں عزم کی علامت بن کر سدا زندہ رہے گا۔،۔