توریت کی پہلی کتاب کے پہلے تین ابواب میں تخلیق کائنت پر اختصار سے مرقوم ہے ،پہلے باب کی آیت ٢٦ اور پھر دوسرے باب کی آیت ١٠ میں خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوأ ،پھر ١٨ ویں آیت میں مرقوم ہے کہ آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں میں اُس کے لئے ایک مدد گاراُس کی مانند بناؤں گا۔ خالقِ کائنات نے چھ دنوں میں کل کائنات کی تخلیق کی ،ہر دن کے اختتام پر خدا نے فرمایا اچھا ہے مگر جب آدم کی تخلیق ہوئی تو رب تعالےٰ نے فرمایا اِس کا اکیلے رہنا اچھا نہیں۔
اِس کا مطلب کے ابھی تک تخلیقِِِِ کائنات نامکمل تھی، چنانچہ آدم پر گہری نیند بھیجی گئی اور خدا نے اُس کی پسلیوں میں سے ایک نکال کر اُس سے عورت کو بنا کر اُسے آدم کے پاس لایا(جب وہ ہوش میں آچکاتھا) ،تب آدم نے کہا یہ تو میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے ……اِس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑیگا اور اپنی بیوی سے ملا رہے گا وہ ایک تن ہوںگے۔!یہ ایک تن کا جو فلسفہ ہے عورت اور مرد اپنی زندگی میں تجربہ سے بھی معلوم کرتا ہے۔
بشرطیکہ کے وہ اُس عہد سے منسلک ہوںجو ایک تن ہونے کو عہد ہے اِس مختصر تفصیل سے یہ واضیع ہوتا ہے عورت کی تخلیق سے قبل کائنات اور آدم کی تخلیق نامکمل تھی گویا عورت کی تخلیق کے بعد ہی تخلیق کائنات مکمل ہوئی ۔لیکن بعد آنے والے وقت میں آدمزاد نے عورت کو نامکمل قرار دیکر خود سے کمتر بنا دیا اور اُسے محض عورت تک ہی محدود کر دیا کہ یہ صرف مرد کی نفسانی خوہشتات کی تکمیل کے لئے ہے اور بعض حالتوں میں صرف بچے پیدا کرنا اور اُن کی دیکھ بھال ہی اُس کا کام ہے۔
بس..حالانکہ نظام فطرت کے مطابق وہ مددگار ساتھی ہمسفر ہمجلیس اور تسکین کے لئے اور دونوں ہی ایک دوسرے کی ضرورت عورت کے بغیر کہیں بھی کسی طرح کی خوشی نامکل بلکہ ماتم والا گھر بھی اِس کی عدم موجودگی کے بغیر اور ماتم ادھورا ہوگا…..!ً! اگر تو آدم کے لئے ایک سے زیادہ حواؤں کی ضرورت ہوتی تو خالقِ مطلق کے لئے کیا مشکل تھادو چار بھی پیدا کر سکتا تھا مگر نہیں فقط ایک ہی مدد گار حوا کی ضرورت تھی جسے خالقِ مطلق نے پورا کر دیااور ساتھ ہی ابتدائے افر نیش ہی سے اُس کی آغوش میں ہی آدم کے لئے سکون اور تسکین رکھ دی گئی۔
چنانچہ اس کی آغوش میں آدم کو زہنی سکون اور قلبی تسکین ملی خواہ یہ کسی بھی صورت میں آدم کے سامنے آئی ۔آدم کی زندگی میں یہ چار مختلف، کبھی، ماںکبھی بہن،،بیوی،اور پھر بیٹی بن کر،ماں کی تصویر کو الٹ کر دیکھیں تو بیوی کی تصویر ہو گی ،اور اِس میں تو اِس کا کردار اور بھی اہم اور مثالی دکھائی دیتا ہے سراپا محبت، وفا اور خدمت کا مرقع، لیکن عورت کی یہ بدقسمتی ہے کہ آدم نے اُسے ہمیشہ خودسے کمتر اور حقیر سمجھا جبکہ عورت کے بغیر وہ نامکمل اور ادھورا ہے، میرے پاس ماں اور بہن کی محبت و شفقت کا تجربہ نہیں لیکن مشاہدہ اس امر کی تصدیق کرتا ہے۔
کہ عورت کسی بھی روپ میں ہو مرد کو اِسی کی آغوش میں سکون ملتا ہے دنیا کے مفکریں اور صاحب دانش لوگوں نے مختلف اوقات میں اِسے اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہوئیے اِس کی تعریف کی ایک نے گلاب کا پھول کہہ کر اِس کے ساتھ خوداری کا کانٹا لگا ہے ،ایک کہتا ہے عورت بیک وقت تسکین و تشنگی کا حیرت انگیز مجموعہ ہے ایک کا یہ کہنا کے عورت کو امتحان میںمت ڈالو ورنہ تمہیں دکھ ہو گا ایک کا یہ کہنا کہ عورت کی نگاہ قانون سے سخت اور آنسو دلائل سے زیادہ پُر تاثیر ہوتے ہیں سقراط مرد کو آنکھ اور عورت کو بینائی قرار دیتاہے۔
scientist
ایک سائنس دان کہتا ہے عورت مرد اور فرشتہ کی درمیان قدرت کی حیرت انگیزم خلوق ہے الغرض ہر ایک نے اپنے نقطہ نظر سے اِس کی تعریف کی ہے،لیکن یہ تجربہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت فی الحقیقت مرد کے جسم کا حصہ ہے ،اب بیوی اور عورت میں فرق ہے ،ماں،بہن، اور بیٹی بھی عورت ہی ہے مگر اِن میں اور بیوی میں امتیاز ہے ،حضرت سلیمان کے اقوال میں مرقوم ہے ، گھراورمال باپ دادا سے میراث میں ملتے ہیں مگر دانشمند بیوی خداوند سے ملتی ہے ،ایک اور جگہ لکھا ہے جسکو بیوی ملی اُس نے تحفہ پایا اور اُس پر خداوند کا فضل ہوا۔
ایک جگہ۔نیکو کار بیوی کس کو ملتی ہے ،کہ اسکی قدر مرجان سے بھی زیادہ ہے ۔اب عورت کے بارے میں فرماتے ہیں ،کیونکہ بیگانہ عورت کے ہونٹوں سے شہد ٹپکتا ہے اور اُس کا منہ تیل سے زیادہ چکنا ہے پر اُس کا انجام ناگدونے کی مانند تلخ…۔کیوں کہ فرمان چراغ ہے اور تعلیم نوراور تربیت کی ملامت حیات کی راہ ہے تاکہ تجھ کو بری عورت سے بچائے ..بیگانہ عورت کی زبان کی چاپلوسی سے …!اور میں عورت، کو خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو تسکین حیات سمجھتا ہوں …جب میرا ساتھی ہمشہ کے لئے جدا ہوأ تو بیٹا ماں کی جدائی کے غم میں بلک بلک کر رو رہا تھا کہ اُس کی ماں اُس سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئی۔
میں شدت غم سے نڈھال اپنی بے بسی پر بین کر رہا تھا اِس لئے کہ بیوی مر گئی ،نہیں ایک ہمدرد ہمسفر ساتھی میرے جسم کا نصف حصہ الگ ہوگیا اور راستے میں چھوڑ کر اپنی الگ راہ ہو لیا،وہ میرے جسم کا حصة تھی ،بیوی تو اور مل سکتی ہے مگر جدا ہوئیے جسم کا حصہ نہیں مل سکتا ،البتہ مصنوعی حصے لگا لئے جاتے ہیں مگر حقیقی اور مصنوعی میں فرق نہیں مٹ سکتا مگر اِس کی اپنی کوئی شناخت نہیں کبھی باپ ،کبھی خاوند، اور پھر بیٹا ،محد سے لحد تک اِس کا اپنا گھر نہیں اِسے ہر مقام پر مرد کا محتاج بنا دیا گیا مرد معاشرے میں آئندہ بھی یہی سلوک ہو گا ۔
جبکہ مرد کی ترقی میں اُس کا بڑا عمل دخل ہے بد قسمتی ہے کے مرد کے معاشرے نے اِسے محض عورت کہہ کر خود سے کمتر اور حقیر بنا دیا، تو بھی آج کی عورت نے وہ بندھن توڑ دئے جن کے حصار میں وہ محبوس تھی اُس نے خود کو آزاد کرا لیا اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ اسُ نے خود کو آدم زاد کی گرفت سے آزاد کر لیا اوراب وہ خود مختار اور اپنی مرضی کی مالک ..مگر نہیں …!مرد کے موجود معاشرے میں وہ آج بھی صدیوں کے گھپ اندھیرے میں سانس لینے پر مجبور ہے،آدمزاد نے اپنی جبلت کے تحت اور شائد اِس خوف سے کہ اگر اِسے آزاد کرکے وہ تمام حقوق دے دئے گئے تو اِس کی اپنی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔
جس طرح آج اِس نے عورت کو غلام بنا رکر اپنا محتاج کئے رکھا ہے پھر وہ اِس کا محتاج ہو گا ،اِس کو رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑے رکھنا ہی اِس کے اپنے مفاد میں ہے حالانکہ سچ تو یہ بھی ہے کہ عورت کی راہنمائی رفاقت کے بغیر وہ خود نامکمل اور ادھورا ہے اس نے ہمیشہ ہر مشکل میں مرد کو سہارا دیااور خود عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہوئے بھی اُسکی تسکین بنی۔
دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اِس کی آزادی کا دن تو منایا جاتا ہے مگر پھر بھی کاروکاری کا شکار،کبھی غیرت کے نام پر قتل اور کبھی میراث اور دولت کے لئے قربان کر دی جاتی،تو بھی وہ محبت، ایثار، وفا، تسکین اور ہر قسم کی قربانی کے لئے ہر وقت تیار، ایک دانشور کا قول ہے اے عورت تورات کا تارا صبح کا ہیرااور شبنم کا وہ قطرہ جس سے کانٹوں کا منہ بھر جاتا ہے ،عورت سے کائنات روشن ہے ،یعنی عورت کادوسرا نام محبت ،لیکن میرے نزدیک عورت کا دوسرا نام تسکین ہے۔
Badar Sarhadi
تحریر: بدر سرحدی ,Tel: 042- 35274653 badarsarhadi@hotmail.com